کالج کی دوستی‘ہمیشہ ساتھ نبھائے 225

پروفیسر شاہد جمیل منہاس کی باتیں

حنیف لودھی‘ پنڈی پوسٹ نیوز/شاہد جمیل منہاس کا کوئی دعویٰ نہیں کہ وہ بہت اچھے لکھنے والے ہیں ۔ان کے موضوعات بھی سنسنی خیزی لئے ہوئے نہیں ہیں لیکن انکی تحریروں کی خوبی یہ ہے کہ وہ جو دل پہ گزرتی ہے ،رقم کرتے ہیں ۔سادہ اور سلیس پیرائے میں بہت بڑی بات کرجاتے ہیں

اور انکی تحریریں دعوت فکر بھی دیتی ہیں اور سوچ کے نئے دریچے بھی کھولتی ہیں ۔ان کے موضوعات کا محور جہاں رشتوں کی پہچان ہے ،وہاں وہ نئی نسل کو اپنے تجربات اور محنت کے حوالے سے بھی دعوت فکر دیتے ہیں ۔ان کے کالموں کا ایک خاص انگ اور تحریر میں ایک نیا رنگ دیکھا جاسکتا ہے

، وہ کسی کی حاشیہ برداری کے قائل نہیں ہیں نہ ہی کسی کی ترجمانی کرکے قلم کی حرمت کو پامال کرنے کے ہنر اور فن سے آشنا ہیں
ان کا تعلق تعلیم و تعلم کے عظیم اور مقدس شعبے سے ہے ۔ ان کے موضوعات عصر حاضر کے واقعات پر ان کے تجزیے کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار پر بھی انہوں نے خوب لکھا ہے۔ ایک تصویر نے انہیں آزردہ کیا تو ان کا بھی دل مسوس کررہ گیا۔

دنیا بھر میں جہاں احتجاج اور عالم اسلام کی مجموعی بے حسی کو انہوں نے نمایاں کیا وہاں چھوٹی چھوٹی مثالیں دے کرضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش بھی کی۔
ان کے موضوعات کا بنیادی مآخذ انسان اور انسانیت ہے جس کی طرف توجہ عام لکھاریوں کی کم ہی ہوتی ہے۔ کہیں ان کے کالموں میں کوئی ستم رسیدہ اور بال بچوں کا ستایا ہوا ضعیف العمر بوڑھا ،بڑھیا ہوتی ہے تو کہیں پر محنت کش کے بچے کا بچپن، اسکے گھریلو مسائل اور یتیمی کی وجہ سے کھو چکا ہوتا ہے

۔وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں ان کا کرب بھی بیان کرتے ہیں اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے پڑھنے والے میں مدد اور احساس کا جذبہ بھی بیدار کرتے نظر آتے ہیں

۔جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا ہے کہ شاہد جمیل مہناس کا تعلق تعلیم کے شعبے سے ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ علم کے نور سے منور رہنے والا اور شعور بانٹنے والا شعوری طور پر شعور بیدار کرنے کی کوشش نہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں ہے
شاہد جمیل الفاظ سے کھیلنے کا ہنر تو نہیں جانتے نہ ہی لفاظی کرکے اپنی علمیت کا رعب جھاڑتے ہیں لیکن الفاظ کا چناﺅ انکی خوبی ضرور ہے ، جیسا کہ عموماً بعض بڑے لکھنے والوں کی تحریروں کو لغت سامنے رکھ کر پڑھنا پڑھتا ہے لیکن شاہد منہاس کے ہاں ایسا نہیں ہے وہ خاص باتیں عام اندازمیں کرتے ہیں

۔ابھی برف نہیں پگھلی ،افسوس کہ داغ آج بھی باقی ہیں ،اعمال زندہ رہتے ہیں ،آزاد فضاءمیں سانس لینا کیسا لگتا ہے ؟،گریبان پکڑ کر حق وصول کررہے ہونگے،گستاخانہ مواد اور خاکے ،ہمارا جواب دشمن کی نسلیں یاد رکھیں گی،حاضر خدمت ہے، اور اس جیسے بے شمار موضوعات دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے

کہ وہ وطن کی محبت میں سرشار بھی ہیں عالم اسلام کے دکھوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں ،انہوں نے بعض لوگوں کے ساتھ ملاقاتوں میں ہونے والی فکر انگیز اور کربناک باتوں کو بھی اپنے قلم کی دسترس میں لاکر ان موضوعات سے انصاف کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ان کے نزدیک ہر ماہ کتاب چھاپ کر مارکیٹ میں لانا نہیں بلکہ چنیدہ کالموں اور تحریروں کا انتخاب موقع و محل کی مناسبت سے سامنے لانا ہے

۔انہوں نے حمدیہ اور نعتیہ شاعری بھی کی ہے اور اصناف ادب کے دیگر حوالوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے ان کی ہر کوشش کامیاب نظر آتی ہے ۔ان کی تربیتی ،معاشی ،سماجی ،عسکری اور دیگر موضوعات پر مشتمل تبصروں اور تجزیوں پر مشتمل کتاب ”اپنی بات“ بھی سند قبولیت حاصل کرچکی ہے

اور ”آبروئے ما“، ”مدحت شاہ امم ﷺ“، ”سیرت ہے جس کی اعلیٰ“، ”معراج کا دلارا ﷺ“بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔راولپنڈی کے علاقے ساگری سے تعلق رکھنے والے شاہد جمیل منہاس نے جس موضوع پر بھی لکھا ہے اس میں تشنگی نہیں رہنے دی ۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں