166

پرائس مجسٹریٹ تاجربرداری کیلئے وبال جان بن گئے

چوھدری محمد اشفاق
مارکیٹس کمیٹیوں کا کام روزانہ کی بنیاد پر ہر قسم کی اشیائے خورد و نوش کے ریٹس مقرر کرنا ہوتا ہے اور ہر روز تیار شدہ ریٹ لسٹ مارکیٹس تک پہنچانا بھی ان ہی کی زمہ داریوں میں شامل ہے ہونا تو اس طرح چاہیئے کہ مارکیٹس کمیٹیوں کو تمام چیزوں کے ریٹس مقرر کرنے سے پہلے منڈی کے ریٹس کو مد نظر رکھ کر روزانہ قیمتوں کا تعین کریں لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے سبزی و پھل فروٹ کی ہی مثال لے لیجیئے منڈی میں ان کی قیمت اور ہوتی ہے اور مارکیٹس کمیٹیاں جو ریٹ لسٹ جاری کرتی ہیں ان پر قیمتیں کچھ اور ہوتی ہیں منڈی اور مارکیٹس کمیٹی کے ریٹ آپس میں مطابقت نہیں رکھتے ہیں صرف لیموں کو ہی سامنے رکھ کر بات کی جائے تو منڈی میں اس کی قیمت 380 روپے ہے ایک دکاندار اس کو منڈی سے خرید کر گاڑی کا کرایہ بھی ادا کرتاہے اور اسے وہ لیموں اپنی دکان تک 400 روپے فی کلو میں پڑ جاتا ہے اب وہ آدھی رات کو اٹھ کر منڈی میں دھکے کھاتا ہے اور ساتھ ہی اس نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے تھوڑا بہت منافع بھی لگانا بہت ضروری ہوتا ہے اور اسے مجبورا وہ لیموں 420 روپے میں فروخت کرنا ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو نقصان میں چلا جائے گا ساتھ ہی ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پرائس مجسٹریٹس یا جو بھی قیمتیں چیک کرنے کیلئے آتے ہیں وہ آتے ہی سب سے پہلے مارکیٹس کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ ریٹ لسٹ طلب کرتے ہیں اور وہ ریٹ لسٹ جس میں پہلے ہی واضح فرق موجود ہے دیکھتے ہی دکاندار کو فوری طور پر ہاتھ میں جرمانے کی چٹ تھما دیتے ہیں ان ایک غریب دکاندار کی کیا جرآت ہے کہ وہ پرائس مجستریٹ کے سامنے کوئی فالتو بات کر سکے وہ بے بسی کی تصویر بنے وہ جرمانہ ادا کر دیتا ہے جس وجہ سے وہ کئی دن کیلئے بہت پیچھے چلا جاتا ہے یہ عمل بلکل ایک نا انصافی پر مبنی ہے اور سرا سر زیادتی کے زمرے میں آتا ہے اور ایک غریب دکاندار سے اس کے بچوں کا رزق چھیننے کے مترادف ہے ایسا طریقہ کار بلکل صیح نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی ہو گا کہ اب اس دکاندار کو ادا شدہ جرمانے کی رقم پوری کرنے کیلیئے کئی طرح کی ہیرا پھیریاں کرنا پڑ جاتی ہیں اب ہو گا کیا اس نے اپنا نقصان پورا کرنے کیلئے بعدمیں آنے والے گاہکوں کو مزید مہنگے سودے فرخت کرنے کی کوشش کرے گا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ادارے اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے دوسروں کو بے ایمانی کرنے کا درس دے رہے ہیں حکومت کو چاہیئے کہ اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دے اور متعلقہ اداروں کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ قیمتوں کا تعین کرتے وقت منڈی کے ریٹس کا ہر صورت خیال رکھا جائے اور منڈی کی قیمتوں کو سامنے رکھ کر روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں طے کی جائیں اس کے بغیرتو غریب دکاندار بجائے فائدے کے نقصان ہی برداشت کرتے رہیں گے اور دکانداروں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ منڈی سے چیزیں مہنگے داموں خریدیں اور آگے سستی فروخت کریں اس کے علاوہ بھی ایک اور بہت بڑا مسئلہ ہے کہ بعض جگہوں پر مارکیٹس کمیٹی کی ریٹ لسٹ پہنچ ہی نہیں پاتی ہے جس وجہ سے دکانداروں کو بھاری جرمانے اور جیل تک بھی جانا پڑ جاتا ہے حالانکہ جرمانہ یا اس طرح کی دیگر کوئی سزا ان زمہ داران کو ملنی چاہیئے جنکی یہ زمہ داری ہے کہ ریٹ لسٹیں ہر جگہ پہنچائی جائیں دوسری طرف اگر پرائس مجسٹریٹس کی بات کی جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر تحصیل میں اسسٹنٹ کمشنر ،تحصیلدار،نائب تحصیلدار اور ان کے براربر کے عہدوں کے دیگر آفیسرز کو قیمتوں کو کنٹرول کرنے کیلئے سپیشل پرائس مجسٹریٹ کے خصوصی


اختیارات سونپے جاتے ہیں جن کیلئے باقاعدہ طور پر ہوم ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے آرڈرز کیئے جاتے ہیں کہ فلاں فلاں آفیسرز کو بطور پرائس مجسٹریٹ نامزد کیا جاتا ہے اگر کسی بھی ایک تحصیل میں تین یا چار پرائس مجسٹریٹس موجود ہوں تو کس دکاندار کی اتنی ہمت ہو کہ وہ مقرر کردہ نرخوں سے زائد قیمت وصول کر سکے پہلی بات تو یہ ہے کہ پرائس مجسٹریٹس کا قیمتیں چیک کرنے کا طریقہ ہی ٹھیک نہیں ہے وہ ایک شاہانہ طریقے سے بازار میں کبھی کبھار تشریف لاتے ہیں اور گاڑی سے نیچے اترنے کے بغیر ہی دکاندار کو بغیر چیک کیئے جرمانے کی چٹ تھما دیتے ہیں ان کے ساتھ اپنے دفتر کا ایک نائب قاصد ہوتا ہے اور وہی سب کچھ کر کے چلا جاتا ہے افسران تو بازاروں میں چیکنگ کرنے کو تکلیف دہ عمل سمجھتے ہیں ان کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے کہ متعلقہ دکان دار اب مہنگی چیزیں کیوں فروخت کر رہا ہے اور آئندہ بھی مہنگی فروخت نہ کرے وہ صرف اس لیئے تشریف لاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا آج کا ملنے والا جرمانوں کے حوالے سے ٹارگٹ پورا کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ ان کو عوام کے ساتھ مہنگائی کی صورت میں ہونے والے ظلم سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دکانداروں کو اس طرح کی کوئی تنبہیہ کرتے ہیں نقصان ہر لحاظ سے صرف اور صرف غریب عوام کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے اگر ہمارے زمہ دار ادارے اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے ادا کرنے شروع کر دیں تو کوئی کسی کی مجال ہی نہیں کہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے قائم کردہ حدود سے تجاوز کر جائے یا ایسا کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکے لیکن جب کوئی بھی پوچھنے والا ہی نہ ہو اور قیمتیں کنٹرول کرنا کسی کا مسئلہ ہی نہ ہو تو دکاندارتو اپنی من مرضی ضرور کریں گے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں