820

پتنگ بازی ایک خونی کھیل

ضیاء الرحمن ضیاء/پتنگ بازی ایک انتہائی خطرناک کھیل ہے جس کی وجہ سے ہر سال کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ یہ صرف وہی لوگ نہیں ہوتے جو پتنگ بازی کا شوق پورا کرتے ہوئے جان کی بازی ہارتے ہیں بلکہ ہلاک ہونے والوں میں سے اکثر ایسے افراد ہوتے ہیں جنہیں پتنگ بازی کا کوئی شوق نہیں ہوتا نہ ہی وہ اس قاتل کھیل کا طریقہ جانتے ہیں بلکہ وہ ویسے ہی کسی آوارہ ڈور کی زد میں آ کر بے دردی سے جان دے دیتے ہیں یعنی پتنگ بازی ایک ایسا کھیل ہے جس میں کھلاڑی اپنا نقصا ن کم جبکہ دوسروں کا زیادہ نقصان کر دیتے ہیں۔ یہ نقصان ایسے ہوتے ہیں جن کا کبھی ازالہ نہیں ہو سکتا۔ پتنگ بازی کے نتیجے میں مالی نقصان شاید ہی کہیں ہوتا ہے اس میں اکثر و بیشتر جانی نقصان ہی ہوتا ہے۔ پتنگ باز خود بھی خطرے میں رہتے ہیں کبھی چھت سے گرنے کا خطرہ اور کبھی بجلی کے تاروں سے کرنٹ وغیرہ کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے اس لیے ایسا کھیل جس میں جان کا خطرہ ہر دم لاحق ہو کسی صورت جائز نہیں ہو سکتا۔ اس خونی کھیل نے بہت سی معصوم زندگیوں کے چراغ گل کیے ہیں۔ گلے پر ڈور پھرنے سے پتنگ بازی نے بہت سے نوجوان، بچے، خواتین اور بزرگ ہم سے چھینے ہیں۔ ہر سال گلے میں ڈور پھرنے سے درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہوتے ہیں پتنگ بازی میں کسی طرح ملوث نہیں ہوتے بلکہ پتنگ بازی کو پسند بھی نہیں کرتے لیکن دوسروں کے اس جان لیوا شوق اور ان کے بڑوں کی غفلت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خود پتنگ بازی کے شوقین افراد بھی اس شوق کی وجہ سے چھتوں سے گرنے، بجلی کے تاروں سے کرنٹ لگنے اور پتنگ کی ڈور پکڑنے کی تگ و دو میں حادثات یا لڑائی جھگڑوں کی وجہ سے زخمی ہو جاتے ہیں۔ایک بڑی دقت ان سانحات سے نجات حاصل کرنے میں یہ ہے کہ یہاں مجرم کا تعین نہیں ہو سکتا کیوں کہ ڈورکے بارے میں یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ یہ کہاں سے آئی ہے کس نے خریدی اور کس نے اسے پتنگ بازی کے لیے استعمال کر کے دوسروں کی جان لینے کے لیے چھوڑ دیا۔ یوں قاتل کا تعین اور گرفتاری نہیں ہو پاتی اور مسلمانوں کا خون رائیگاں جاتا ہے جبکہ قاتل کو علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے فعل سے کتنا بڑا نقصان ہو چکا ہے اور اس لاعلمی کی وجہ سے وہ خود کو بے گناہ تصور کرتا رہتا ہے ۔ جب اسے اپنے گناہ کا علم ہی نہیں ہوتا تو وہ آئندہ بھی اپنے فعل سے توبہ نہیں کرتاحکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا ہر ممکن تحفظ کرے اور مجرموں کی نشان دہی کر کے انہیں سخت سزائیں دے تاکہ جرائم کی روک تھام کر کے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی جا سکے۔ پتنگ بازی جیسے جان لیوا کھیل کے خلاف ابھی تک حکومت نے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر پتنگ بازی جاری ہے۔ تمام گنجان آباد علاقوں میں ہر گلی محلے میں پتنگ اڑتے دکھائی دیتے ہیں، جو مسلسل جانیں لینے میں مصروف ہیں۔ یہ ایسا خطرناک کھیل ہے جس کی کسی صورت میں اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس کھیل میں ملوث افراد کسی قسم کی رعایت کے مستحق ہیں۔ انہیں معافی دینا یا ان سے چشم پوشی کرنا معاشرے کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اس گھناؤنے جرم کی روک تھام کے لیے سب سے پہلے ان فیکٹریوں کو بند کیا جائے جہاں پتنگ اور کیمیکل ڈوریں تیار ہو رہی ہیں۔ ان کے مالکان کو گرفتار کر کے سخت سزائیں دی جائیں۔ پھر ان دکانوں کو بند کیا جائے جن میں پتنگ اور پتنگ بازی کا سامان فروخت ہو رہا ہے اور ان پر بھی بھاری جرمانے کیے جائیں۔ اس کے بعد ان لوگوں کا تعین کیا جائے جو پتنگ بازی کرتے ہیں، انہیں گرفتار کر کے انہیں بھی سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے علاوہ جس مکان کے چھت پر پتنگ بازی کی جارہی ہو اس مکان کے مالک پر بھی بھاری جرمانہ عائد کیا جائے۔ یوں کم از کم لوگ اپنے کرایہ داروں اوراپنے بچوں کو چھتوں پر پتنگ بازی سے روکیں گے۔ پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ سخت سزائیں اور بھاری جرمانہ عائد کیا جائے تبھی اس جرم کی روک تھام ممکن ہو پائے گی۔حکومت کے علاوہ جرائم کی روک تھام کے لیے معاشرے پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ پتنگ بازی کو عام طور پر تو کھیل سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقتا یہ کھیل نہیں ایک جرم ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا بیٹھتے ہیں جس طرح اسلحہ رکھنا جرم ہے کیونکہ اس سے کسی معصوم کی جان جا سکتی ہے بالکل اسی طرح پتنگ بازی بھی جرم ہے جس سے کئی بھی وقت کسی معصوم کو جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے، تو جیسے ہم بچوں کے ہاتھوں میں اسلحہ وغیرہ دینا پسند نہیں کرتے اسی طرح پتنگ دینے کو بھی نا پسند کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ کسی علاقے میں پتنگ سازی کی فیکٹری ہے یا پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والی دکان ہے یا کوئی شخص خفیہ طور پر اپنے گھر وغیرہ میں پتنگ فروخت کر رہا ہے تو پولیس کو ان کی بھی اطلاع دیں اور ان کے خلاف کاروائی میں پولیس کی مدد کریں تاکہ اس جرم کا مکمل طور پر خاتمہ ہو اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں