columns 252

پاکستان کے ریاستی وسائل

ہمارا ملک پاکستان طویل مدت سے مختلف قسم کے مسائل سے گرا ہوا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں کمی ہونے کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کو اہل اور مخلص قیادت کا میسر نہ آنا ہے حکو متیں بر حکومتیں آرہی ہیں لیکن وہ حکومت ابھی تک نہیں آئی جو ملک کو بھنور سے نکال کر ترقی کی راہ پر گامزن کرسکے اس میں ایک ایسی حکومت بھی شامل ہے جس کا نعرہ تھا تبدیلی پاکستان کی عوام کو اس سے امید تھی کہ ان کی قسمت بدلے گی اور ما یوسی کے بادل چھٹ جائیں گے لیکن ملک اور قوم کی حالت سدھرنے کے بجائے مزید بکھر چلی ہے ایک خیال یہ بھی تھا کہ عام انتخابات کے بعد ایک نئی سحر طلوع ہو گی اور حا لت میں بہت بہتری آئے گی یہ انتخابات بھی ہو گئے اور نئی حکوت بھی آگئی دیکھتے ہیں وہ کیا کردار ادا کرتی ہے

مگر ان انتخابات نے بہت سی گھتیوں کو سلجھایانہیں ہے بلکہ وہ مزید الجھی ہوئی نظرنہیں آرہی ہیں ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں مصروف ہے ہر کوئی جمہوریت کی چھٹی کا راگ الاپ رہا ہے لیکن جمہوری اقدار کا کسی کو احساس نہیں ہے ملک و قوم کا وسیع تر مفاد محض زبانی خرچ تک سب سے عزیز ہے لیکن عمل کی تو فیق کسی کو بھی نہیں نظریاتی اختلافات جمہوریت کا اصل چہرہ ہے لیکن ہمارے سیاستدان اسے ذاتی اختلا فا ت سمجھ کر با ہم دست گریباں ہیں جب تک یہ انداز فکر تبدیل نہیں ہو گا تب تک صورتحال تبدیل نہیں ہوگی اس لئے جتنا جلد ہو سکے اس سوچ کو تبدیل کرنا چاہیے ہماری سیاسی جماعتوں کا عام وطیرہ یہ رہا ہے

کہ مخالفت برائے مخالفت کر تے ہیں خواہ اس سے ملک و قوم کا نقصان کتنا بھی ہو جائے اقتدار کے نشے نے انہیں اندھا کر رکھا ہے یہ کسی مخصوص پارٹی تک نہیں محدود نہیں ہے بلکہ یہ عام رویہ ہے اس لا متناہی مسائل نے ملک کی ترقی کو روک رکھا ہے ہم پہلے جہاں تھے اب بھی وہاں ہیں اور اب بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں سیاسی عدم استحکام نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں جن میں معاشی پیشرفت کا نہ ہونا سب سے اہم اور قابل غور ہے آج کے دور میں معاشی استحکام نے بہت سے مسائل پیدا کئے ہیں جن میں معاشی پیشرفت کا نہ ہونا سب سے اہم اور قابل غور ہے آج کے دور میں سیاسی عدم و استحکام کی اہمیت ہے بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم ایک بھکاری کی طرح کشکول اٹھائے در در مارے پھرتے ہیں ہم نے اپنی قومی جمیت اور خوداری کو گروی رکھ دیا ہے ملک اس وقت معاشی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور حالت یہ ہے کہ جون 2024 تک اسے پچیس ملین ڈالر کا بھا ری قرض ادا کرنا ہو گا اگلے تین سال کے دوران 80بلین ڈالر کی ادائیگی کرنا ہو گی یکے بعد دیگر حکومتوں نے قرض لے

کر ملک کی معیشت کا بیڑا عرق کر رکھا ہے یہ با ت انتہائی تشویشناک ہے کہ خسارے میں چلنے والے اداروں نے معیشت کو کنگلا کر رکھا ہے جن میں پاکستان سٹیل ملز اور قومی ٖفضائی کمپنی شامل ہیں اگر ان اداروں کو بد انتظامی سے بچا کر فعال طریقہ سے چلایا جاتا تو تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی اگر ملک سے باہر بھیجی ہوئی دولت واپس آجائے تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ ملک کی کایا پلٹ سکتی ہے لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ یہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں تا کہ ملک کی ڈوبی ہوئی کشتی کو بچایا جا سکے لیکن ایساہونا محال اور خواب ہے ملک کے معاشی حالات کچھ یوں ہیں کہ ہماری اشرافیہ ملک کی 90 فیصد وسائل پر قابض ہے اور اصل صورتحال میں یہ کیا جواز ہے کہ غریب مہنگائی میں پستا چلا جائے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملتی رہے بجلی اور گیس کا گردشی قرضہ پانچ ہزار ارب روپے سے زیادہ ہو گیا ہے اور تسویشناک بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنحواہیں بھی قرض لے کر دی جارہی ہیں علاوہ ازیں صورتحال یہ ہے پاکستان پر واجب الاد قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے پاکستان کو مذید قرضہ لینا پڑھ رہا ہے یعنی پاکستان اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ اپنے وسائل سے سود کی ادائیگی کے 1947ء سے 2008ء تک اکسٹھ سالوں میں پاکستان 6127ارب روپے کا مقروض تھا لیکن 2008ء سے 2023ء تک قرضہ با سٹھ ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ قرضہ گیا کہاں عوام خوشحال ہوئے نہ عوا م کا معیار زندگی بلند ہوا اور نہ ہی صحت اور تعلیم کی معیاری سہولتیں میسر آئیں پاکستان کی نصف سے زائد آبادی غربت کاشکار ہے اور تقریباً ایک کروڑ مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں پاکستاں جن ملکوں اور اداروں کا مقروض ہے ان میں آئی ایم ایف، ورلڈبینک،ایشیائی بنک پریس کلب اور دوست ممالک چین سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سر فہرست ہیں پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جنھوں نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ قرض لے رکھا ہے اگر آئی ایم ایف اور ایک کے سب بڑے مقروض ملکوں کی بات کی جائے جن میں ارجنٹائن مصر یوکرین اور ایکواڈور کے بعد پاکستان پانچویں نمبر پر ہے جبکہ ایشیائی ملکوں میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے مختلف ادوار میں مختلف حکو متیں قرض لیتی رہی ہیں لیکن ان قرضوں کی ادائیگی سود سمیت عوام کوہی ادا کرنی پڑتی ہے۔ عوام کو یہ خوش خبری سنائی جار ہے کہ پاکستانی عوام ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے پیٹ پر پتھر باندھ لیں لیکن سوال ہے کہ یہ قربانی پاکستان کے غریب عوام ہی کیوں دیں جو طبقہ پاکستان کے وسائل سے سب سے زیادہ مستفید ہوئے زیادہ قربانی انہیں ہی دینی چاہیے پاکستانی غریب عوام اپنی سکت سے زیادہ قربانی دے چکے ہیں ان کی رگوں سے بہت زیادہ خون نچوڑا جا چکا ہے جبکہ مٹھی بھر اشرافیہ جو 90فی صد وسائل پرقابض ہے اور جو پانچ ہزار ارب روپے سے زیادہ کی سالانہ مراعات حاصل کرتی ہے آخر یہ اشرافیہ کون ہے؟ یہ اشرافیہ وہ ہے جس نے برٹش سامراج کے ہندوستان پر قبضے کے لئے ہر ممکن مددکی انعام کے طور پر انگریزوں نے وہاں سے جاتے وقت بائیس ہزار افراد میں جاگریں تقسیم کیں آج وہی خاندان

اس ملک کے وسائل پر قابض اور سیاہ و سفید کے بلا شرکت مالک چلے آرہے ہیں یہی لوگ دوسری بے شمار مراعات کے علاوہ ملکوں سے بڑے بڑے قرضے لے کر با آسانی معاف کرالیتے ہیں جبکہ یہ عوام کے پیسے ہوتے ہیں جو کھربوں کی مقدار میں ملکوں میں جمع ہیں اول تو عام آدمی کوقرضے ملتے ہی نہیں ہیں اگر کسی طرح مل بھی جائیں تو سودسمیت ایک ایک پیسہ وصول کر لیا جاتا ہے انگریز سامراج بہت دور اندیش تھا وہ کم از کم اگلے سو سال کی سوچتا تھا۔ چلے جانے کے باوجود اس اس کا تمام اسلامی ملکوں پر قبضہ برقرار ہے آج تمام اسلامی ممالک پہلے سے زیادہ سامراج کے غلام ہیں غزہ جنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے غلامی کا شکنجہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ اس غلامی کے شکنجے سے نکلنا ممکن ہو گیا ہے آزادی خیرات میں نہیں ملتی اس کے لئے خون دینا پڑتا ہے تب جا کر حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے آج سے 77 برس قبل ہمارے آباؤ اجداد نے اس آزادی کو حاصل کرنے کے لیے آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کئے اور پھر کہیں جا کر

وہ اس قابل ہوئے کہ اپنی آئندہ نسلوں کو آزاد فضا دلا سکیں ہم نے اپنے رب سے مانگا کہ ہمیں ایک خطہ امن میں عطا کر جہاں ہم آزادی سے دین کے مطابق اپنی زندگی گزار سکیں اور رب نے ہمیں وہ خطہ عطا کر دیا اللہ نے ہم پر اپنی نعمتیں تمام کردی کمی اگر ہے تو ہماری کوششوں اور ہمارے اعمال میں ہے کہ ہم نے اپنے وطن کو جس مقصد کے لئے حاصل کیا تھا اس مقصد کے لئے ہم محنت نہیں کررہے ہم نے اپنی زندگی کو اسلام کے سا نچے میں ڈھالنا تھا ہم نے اسے نظام تعلیم کی اصلاح کرنا تھی نظام معیشت و تجارت کو دین کے مطابق چلانا تھا آئین میں اقتدار اعلی صرف اللہ کی ذات سے ہم نے اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا تھا ہم نے اسلامی دنیا کا سہارا بننا تھا لیکن یہ کام تو ہم نے کئے ہی نہیں یہی وجہ ہے کہ آج ہماری آزادی کی دولت خطرے میں ہے ملک کو آئی ایم ایف اور ور لڈبنک کی غلامی میں دے دیا ہے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پس رہے ہیں ہماری ناقص خارجہ پالیسیوں نے ہمیں دنیا بھر میں اکیلا کر دیا ہے کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے کہ ہم صورتحال کی نزا کتوں کا ادراک کریں اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں اور اپنی آزادی کی حفاظت کریں ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں