یہ 16جولائی کی ایک بھیانک رات تھی جب ترکی میں فوج کے ایک گروہ نے بغاوت کر ڈالی اور اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن ترک صدر طیب اردوان کی اپیل پر عوام بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے اور فوجیوں کی خوب درگت بنائی ۔اگر چہ فوجیوں نے کرفیو نافذ کر رکھا تھا لیکن عوام اپنے محبوب صدر کی اپیل پر کسی بھی مصیبت کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر آ گئے ۔ فوج نے عوام اور پولیس پر فائرنگ بھی کی جس کی وجہ سے کئی افراد شہید بھی ہوئے لیکن ترک عوام نے وہ کر دکھایا جو کسی مقبول لیڈر کے کارکنان کو کرنا چاہیے ۔ عوام نے چند گھنٹوں میں ہر ادارے میں گھسے فوجیوں کو چن چن کر نکالااور گرفتار کرا دیا ۔ عوام نے جس طرح سے قربانیاں دیں وہ واقعی تعریف کے قابل ہیں وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے ، ٹینکوں پر خوب ڈنڈے برسائے پھر اوپر چڑھ کر فوجیوں کو دودھ سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا ۔ ساری رات سڑکوں پر گزاری اور آخر کار ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور فوجی بغاوت کو ناکام بنا کر اپنے محبوب صدر کی حکومت کو بچا لیا۔ انہوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان کے صدر میں وہ صلاحیتیں ہیں جو شاید کہیں اور نظر نہ آئیں ۔ جس صدر کے لیے عوام نے اتنی قر بانیاں دیں اس صدر نے بھی عوام کے لیے بہت کچھ کیا ہے ۔صدر طیب اردوان جدید ترکی کے بانی کہلاتے ہیں، ان کے عوام ان سے راضی اور بہت مطمئن ہیں ملک میں امن ہے ۔عوام کا اپنے صدر پر اعتماد حالیہ بغاوت کے واقعہ سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے صدر سے کس قدر مطمئن ہیں کہ ان کی حکومت کو بچانے کے لیے اپنی جانیں بھی داؤ پر لگا دیں۔ طیب اردوان پہلے1994 میں میئر بنے تو استنبول شہر کو کرپشن سے پاک کیا ،ٹرانسپورٹ کا نظام درست کیا، وہاں سکولوں کا معیار بلند کیا ، شہر میں امن و امان قائم کیا ۔ اور صدر بننے کے بعد تو پورے ترکی کو امن کا گہوارا بنا دیا ، ترکی کو ایک مستحکم معیشت والا ملک بنانے میں بھی طیب اردوان کا کردار بہت اہم ہے۔ اسی وجہ سے وہ تین بار مسلسل ترکی کے وزیر اعظم اور پھر صدر منتخب ہوئے۔ترکی کے عوام کے لیے انہوں نے کچھ کیا تو انہیں اس کا بھرپور صلہ بھی مل گیا لیکن ہمارے ہاں حالات اس کے با لکل برعکس ہیں ۔
ہمارے ہاں سیاستدان کرپٹ ہیں ۔ ان کی حکومت نے کرپشن کو ختم کیا اور ہماری حکومت خود کی کرپشن میں ملوث ہے تو یہ ختم کیا کرے گی۔ ترکی کی حکومت اسلام پسند ہے اور ہماری حکومت اسلام پسندوں کے بھی خلاف ہے ۔ ترکی کے صدر نے فلسطینیوں کیخلاف اسرائیل کی کاروائیوں کی شدید مخالفت کی لیکن ہماری حکومتوں کو مسلم کُش نظر نہیں آتے ،بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے پاکستان سے محبت رکھنے والے رہنماؤں کو پھانسیاں دی گئیں پاکستان کی حکومت خاموش رہی مگر ترک صدر نے بنگلہ دیش سے احتجاج کیا، فلسطین اور بنگلہ دیش تو دور ہیں ان حکمرانوں سے تو کشمیر کے لیے نہیں بولا جاتا جس پر پاکستان کا پورا حق ہے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں ، جغرافیائی ، مذہبی ،سیاسی ہر لحا ظ سے کشمیر پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کر کشمیری خود پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اتنے دلائل ہونے کے باوجود ہم دنیا میں اپنا مظبوط مؤقف نہیں پیش کر سکے ۔ ترک صدر نے ہر میدان میں عوام کے لیے کام کیا لیکن ہماری حکومتوں نے عوام سے کام لیا اور عوام کو کچھ نہ دیا ۔ ہمارے بہت سے سادہ لوح لوگ پاکستان کو ترکی کی طرح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وہ ذرا وہاں کے حالات اور یہاں کے حالات کا تقابلی جائزہ لیں تو ان پر واضح ہو جائے گا کہ ترکی اور پاکستان کی حکومتوں میں کتنا بڑا فرق ہے ۔ ترکی کی حکومت نے ہر لمحہ کرپشن کو کم کیا لیکن ہماری ہر حکومت نے کرپشن میں اضافہ کیا ، ترک صدر نے ملک کو آگے بڑھایا ہر طرح کے بیرونی دباؤ سے ملک کو نکالااور ہماری ہر حکومت نے ملک کو پیچھے دھکیلابیرونی قرضوں کا بوجھ ڈالا ۔روس کا ایک طیارہ ترکی کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرے توان سے برداشت نہیں ہوتا اور وہ اسے فوراً مار گراتے ہیں تا کہ دوبارہ کوئی ایسی جرأت نہ کر سکے لیکن ہمارے ملک میں امریکہ نے کتنے ڈرون حملے کیے ہمارے کتنے معصوم شہری مارے گئے لیکن ہمارے حکمرانوں کو ذرا غیرت نہ آئی چند مذمتی کلمات کہہ کر گزارا کرتے رہے ۔ توان کی عوام میں مقبولیت کیسے ہو عوام ایسے حکمرانوں کے لیے کیونکر نکلیں گے ۔ ترکی میں جمہوری حکومت عوام میں زیادہ مقبول سے لیکن اس کے برعکس پاکستان میں عوام فوج سے زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ موجودہ دور میں جنرل راحیل شریف نے دہشتگردی کے خلاف جو کارنامے کیے ان کی وجہ سے عوام ان پر اعتماد کرنے لگے ہیں اور شاید یہ پاکستان کے پہلے فوجی جرنیل ہیں جن کی ہر طبقہ میں مقبولیت برابر ہے اس سے پہلے بھی جنرل ضیاء الحق بھی کافی مقبول تھے لیکن ان کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی لیکن جنرل راحیل شریف ایسے پہلے سپہ سالار ہیں جن کی مقبولیت خواص و عام میں بہت زیادہ ہے اور ہونی بھی چاہیے انہوں نے عوام کی امیدوں کے مطابق کام کیا ہے ۔ دہشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان میں تمام سیاسی جماعتوں کو جمع کیا ، کراچی میں کامیاب فوجی آپریشن کیا ، وزیرستان میں دہشتگردوں کے قلعے قمع کیے ، بذاتِ خود محاذ پر جا کر فوجیوں سے ملتے رہے انہیں ہدایات دیتے رہے ان کے حوصلے بڑھاتے رہے ۔ قوم کی نظروں میں فوج کی اہمیت جو کہ مشرف دور میں کھو گئی تھی اب بحال ہو گئی ہے لیکن جمہوری حکومت اپنی قدر مزید کھو رہی ہے ۔ اب ایسی صورتحال میں جب فوج پر عوام مکمل اعتماد کر رہے ہیں اور جمہوری حکومت اپنا وقار کھو چکی ہے تو اگر فوج حکومت کو گرا کر مارشل لاء لگاتی ہے تو عوام کس طرح سے ان کرپٹ حکمرانوں کے لیے نکلیں گے ۔ کیا ان حکمرانوں کے لیے عوام ٹینکوں کے آگے لیٹیں گے جو پورے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں ؟ کیا ان حکمرانوں کے لیے عوام فوج کی مخالفت کرے گی جنہیں اپنے مفادات کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا ،فوج سے قوم کو پھر بھی کچھ امید ہے لیکن اپنی منتخب جمہوری حکومت سے عوام کو بھلائی کی کوئی امید نہیں ہے ۔ میرا کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ پاکستان میں مارشل لاء لگنا چاہیے اور فوج کو حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہیے اور اللہ کرے ایسا کبھی نہ ہو ، جمہوریت جیسی کیسی بھی ہے یہ چلتی ہی رہے تو اچھا ہوتا ہے ، لولی لنگڑی جمہوریت بھی آمریت سے کہیں بہتر ہوتی ہے ۔{jcomments on}
93