ٹرانسپورٹرز کی من مانیاں

ہم برسوں سے بے خوابی کے دہکتے عذاب میں مبتلاہیں جاگتی اور جلتی آنکھوں سے ناممکن کے خواب دیکھتے ہیں ایک شائستہ ترین انسان گیر معاشرے کے وجود کی آرزو ہمارے ذہنوں کا سب سے پیش بہا سرمایہ ہے ہم برسوں سے دل برداشتگی کی کیفیت میں اپنے دن رات بیتا رہے ہیں ہمارے وطن کو وقت سے پہلے دیمک لگ گئی یہ ملک اب فساد خون مبتلا ہے میں کیا کہوں روؤں یا کراہوں کہ یہاں کے طاقت ور جھتے وحشی قبیلوں کی طرح اپنے دل میں خون آشام کینہ رکھتے ہیں سو اس وقت عوام خوف اور سفاک خدشوں کے سبب بری طرح نڈھال ہیں۔ہمارے معاشرے میں رائج نظام نے زندگی کو کچھ اس طرح سے محبوس کیا ہے کہ عوام کو قدم قدم پر اپنے سانس کا تاوان دینا پڑتا ہے۔ چھینا چھپٹی کے کھیل نے ہماری زندگیاں عذاب کردی ہیں حقوق ملنا تو دور حقوق کی بات کرنا بھی کسی جرم سے کم نہیں دنیا بھر کے لوگ اپنے گھروں میں آرام کی نیند سوتے ہیں لیکن یہاں نہ رات کو چین ہے نہ دن کو سکون جو کچھ اس وقت قوم کے ساتھ ہورہا ہے وہ بہت ہی روح فرسااور اندوہناک ہے دنیا کے کسی خطے میں اپنے عوام کا خون اس طرح نہیں پیا جاتا جس طرح ہمارے یہاں چوسا جاتا ہے ہر طرف ہوشرباء وارداتوں کا تسلسل ہے ہرجانب من مانیاں ہیں اختیار رکھنے والے اختیار کو نگل رہے ہیں قانون بے توقیر کردیا گیا ہے

ہر طرف لوٹ مار کا بازار ہے۔لیکن فرائض کی ادائیگی کہیں دیکھائی نہیں دیتی۔اشیاء خوردو نوش سے لے کر ایندھن کے کاروبار سے منسلک افراد اپنی اپنی سہولت کے مطابق عوام کی جیبوں پر ڈاکے ڈال رہے سرکاری نرخ کہیں بھی لاگونہیں اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے شکایات ہیں کہ ٹرانسپورٹ مافیا من مرضی کے کرائے کی وصولی پوری بدمعاشی سے کرتے ہیں اعتراض پر مسافر کو گاڑی اتار دینا بھی ان کے نزدیک کوئی برا فعل نہیں۔کلر سے پنڈی چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے قبل کلر سے آخری اسٹاپ منڈی موڑ تک کوئی گاڑی تین سو اور کوئی ساڑھے تین سو روپے کی وصولی کررہے تھے۔ ڈیزل کی قیمتوں میں تیس روپے اور پٹرول کی قیمتوں میں بارہ روپے کی کمی کے باوجود کرایوں میں کسی قسم کی کمی نہیں کی گئی جو مسافر اس پر بحث کی کوشش کرئے اسے اتار دینے کی دھمکی دی جاتی ہے بلکہ بداخلاقی اور بدتمیزی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ کسی بھی روٹ پر چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ میں آر ٹی اے کی جانب سے جاری کرایہ نامہ کی لسٹ موجود نہیں کیونکہ آر ٹی اے بذات خود اس مافیا سے ملکر لوٹ مار میں مصروف ہے کرایہ نامہ جاری نہ ہونا مبینہ ماہانہ بھتہ کا کمال قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ گوجرخان اور کلر سیداں میں تعینات اسسٹنٹ کمشنر صاحبان باہر نکل کر دیکھنے سے قاصر ہیں کہ پٹرولیم مصنوعات میں بڑی کمی کے بعد عوام کو کیا ریلیف دیا گیا ہے۔ ہمارے ٹیکسوں سے اے سی لگے کمروں میں بیٹھے بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے والے ہمارے حاکم نما خدام کو ہمارے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں آر ٹی اے کا منظور شدہ کرایہ نامہ ویزاں ہے یا نہیں انہیں من مرضی کے کرائے کی وصولی پر بھی اعتراض نہیں کیونکہ وہ سرکاری گاڑی پر سرکاری پٹرول ڈلوا کر سفر انجو ائے کرتے ہیں اگر ان سے مراعات چھین لی جائیں اور ان کی فیملیز کو پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کی اذیت سہنا پڑے توہمارے ان آقاؤں کو عوامی مشکلات کا ادارک ہو کیونکہ کسی چیز کی اصل اہمیت اس وقت واضح ہوتی ہے جب وہ آپ سے چھین لی جاتی ہے سات دھائیوں کی کہانی یہ رہی کہ عوام کے حصے میں طفلانہ تسلیوں کے علاوہ کچھ نہیں آیا بازی گر صورتیں بدل بدل کر تماشہ دیکھاتے رہے۔عوام آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں مافیاز کے ہاتھوں اپنی کھالیں کھنچوا رہے ہیں۔دور حاضر میں جہاں مہنگائی عوام کے لیے عذاب بن چکی ہے وہیں پبلک ٹرانسپورٹ کی لوٹ مار بھی عوام کے لیے مشکلات کا سبب ہے دور کوئی بھی ہو یہ معاشرتی ناسور ہر دور میں اسی طرح متحرک رہے ہیں یہی ناسور ہماری تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر کلر و گوجرخان پبلک ٹرانسپورٹ میں ناجائز‘کرایہ وصولی کا نوٹس لیں۔آر ٹی اے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر کرایہ نامہ جاری کرے اور اس کرایہ نامہ کوتمام روٹس کی گاڑیوں میں آویزاں کرنے کا پابند کرتے ہوئے عوام کو ان مگر مچھوں کی جبڑوں سے بچائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں