چودہ فروری یعنی ویلنٹائن ڈے کفار کی تہذیبی یلغار ارو میڈیا کی بھر پور کوریج کی بدولت ہر گزرتے سال کے ساتھ مزید جوش و خروش کے ساتھ منایا جانے لگا ہے۔ پہلے پہل تو یہ دن مخصوص کمیونٹی مناتی تھی جو خود ذہنی پستی کا شکار تھی اور یورپ کے رسم و روا ج کو من و عن قبو ل کرنے کو باعث نجات سمجھتی تھی جن کا خیال تھا کہ اگر ہم نے یورپ سے درآمد شدہ رسم چھوڑ دی تو نہ جانے ہم دنیا سے کتنے سال پیچھے چلے جائیں گے اگر ہم ویلنٹائن ڈے کا جائزہ لیں تو اس دن کی بنیاد ہی معاشرے میں بے راہ رو ی اور فحاشی کا موجب نظر آتا ہے تیسری صدی عیسوی کا ایک رومی پادری ویلنٹائن تھا یہ عیسائیوں کے ہاں مقدس باپ کا درجہ رکھتاتھا جو گناہوں سے لوگوں کو پاک کرتاتھا ان کے ساتھ کلیساؤں میں مقیم کنواری لڑکیاں جنہیں راہبائیں کہا جاتا ہے، کے لیے شادی کرنا حرام خیال کیا جاتا ہے۔ اسی پادری اور راہبہ کے درمیان محبت کی پینگیں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں جب ہوس مزید بڑھنے لگی تو پادری راہبہ کو رام کرنے کے لیے اپنا من گھڑت خواب بیان کرتا ہے کہ مجھے خوا ب میں دکھایا گیا کہ اگر کوئی راہب اور راہبہ چودہ فروری کے دن زنا کرلیں تو ان پر کوئی جرم نہیں آخر یہ دونوں اپنے مذہبی ارادوں کو پائیہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں یو ں کلیساکے مذہبی تقدس کو پامال کرنے کی سزا میں دونوں کو سزائے موت دی جاتی ہے اس واقعہ سے ہمیں دو چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے پہلی یہ کہ جب بھی انسان فطرت کے مخالف چلتا ہے تو وہ یوں ہی بھٹکتا پھرتا ہے اور شیطان اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیتا ہے رشتہ ازواج سے منسلک ہونا عین فطرت ہے اور اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے عیسائیت کے نام لیوا پیروکاروں نے اس فطرتی عمل سے منہ موڑا اور اپنے آپ شادی کو حرام کیا جس سے کئی برائیاں ان میں پھوٹ پڑیں اس پادری اور راہبہ کے واقعے کو بعض لوگوں نے کچھ عرصہ بعد باقاعدہ محبت کے ویلنٹائن کو شہید محبت کا درجہ دے کر منانا شروع کر دیا ان واقعات کا تعلق رومن لوگوں سے ہو یا کسی مغربی پادری سے اسلام سے اس کا ہرگز کوئی تعلق نہیں دوسری چیز جس پر ہمار ے معاشرے کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ ہم مغرب کی نقالی میں اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ جو ہماری خاندانی روایات ہوا کرتی تھیں ہم انہیں بھی پس پشت ڈالتے جا رہے ہیں اسی طرح اسلام میں کوئی بھی جو عائلی زندگی کا محافظ ہے جس میں رشتوں کو اہمیت اور عزت و تکریم دی جاتی ہے جہاں عورت کاماں، بہن،بیٹی،بیوی کے روپ میں تقدس موجود ہے ہم نے مغرب کی اندھی تقلید میں عورت کومحض کھیل تماشہ اور اپنی ہوس کی تسکین کا زریعہ سمجھ لیا ہے چاہیے تو یہ تھا کہ ہمارہ معاشرہ اس بڑائی کی جڑ کو سمجھتا۔ نکاح جیسی سنت پر عمل ہونا تاکہ معاشرے کو بڑائیوں سے محفوظ بنایا جاسکتا مگر نکاح کے راستے میں اسی معاشرے نے کئی طرح کی رکاوٹیں کھڑی کر دیں کہیں لڑکے کے کمانے کے قابل ہونے کا بہانہ بنایا گیا تو کہیں لڑکی کو پڑھائی کے نام پر انتظار کی سُولی پر چڑھادیا گیا جس کے نتیجے میں وہ غیر شرعی راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوئے جس سے معاشرے کی ہم نے تقلید شروع کی زرا یک لمحہ کے لیے اس معاشرے سے پردہ اٹھا کر سوچتے کہ اس کی صورت حال کیا ہے؟ جہاں عائلی نظام تباہی کے دہانے پر ہے بچوں کو اپنے باپوں کا پتہ نہیں ۔ ویلنٹائن ڈے منانے وا لے جب وہ سرخ گلاب حوا کی بیٹی کو پیش کرتے ہیں تو کیا اپنے مقدس رشتوں کو بھول چکے ہیں کہ وہ بھی اس دنیا میں موجود ہیں ان خرافات میں سب سے آگے ہم اپنی درسگاہوں کو پاتے ہیں جہاں گھر والوں نے تو ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھیجا تھا ہم پر اعتماد کیا تھا مگر ہم اس اعتماد کا جنازہ نکالتے ہوئے ذرہ برابر نہیں چوکتے جب انسان سے شرم وحیاچھین جاتی ہے تو اس میں حیوانیت آجاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ پھر اپنی ہی بہن یا بیٹی کے سر سے آنچل کھینچتے ہوئے ہما رے ضمیر پر ذرا سی بھی خراش نہیں آتی مغرب کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ مسلمانو ں سے شرم وحیا کو چھین کر انہیں جنسی تسکین میں خیوانوں کے برابر لاکھڑا کیا جائے اسی مادر پدرآزاد معاشرے کا حال دیکھئے کہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ وہاں زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے یہ ویلنٹائن ڈے اور اس طرح کی دوسری خرافات جن کو ہم آج معمولی سمجھتے ہیں کل کو یہ ہمارے گلے کا طوق ثابت ہو سکتی ہیں ،چودہ فروری کو یہ دن خصوصاََ یورپ میں ایسے منایا جاتا ہے جیسے اس دن لوگوں نے بے حیائی کا سرٹیفیکیٹ لے لیا ہو اس کی نقالی میں پاکستان میں بھی یہ گھٹیا فعل پروان چڑھتا جارہاہے۔ وہ لوگ جو اس بے حیائی کو مسلمانوں میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں اُن کو اللہ کی وعید سامنے رکھنی چاہیے ویلنٹائن ڈے پر غیر محرم مردیا عورت ایک دوسرے کو اظہارمحبت کے لیے پھول یاکارڈ پیش کرتے ہیں اس سے بے باقی کے در کھلتے ہیں اور انسان اپنے دل میں غیر اخلاقی تعلقات کا خواہاں ہوتا ہے پھر اس کے بعد سارے ہی غیر شرعی کام سر انجام پاتے ہیں جو کہ جائز نہیں اس لیے ہمیں برائیوں کی طرف کھلنے والے اس دریچے کو قطعی طور پر بند رکھنا چاہیے تاکہ عزتوں کی پامالی اور معاشرے میں بگاڑ سے بچاجا سکے۔{jcomments on}
112