132

وزیر اعظم کی آرمی چیف کو درخواست

طاہر یاسین طاہر
بلاشبہ ہم حقیقت پسند معاشرہ نہیں ہیں۔بڑھکیں، جذباتیت،وقتی ابھار اور بھانت بھانت کے نعروں کو ہی ہم جمہوریت اور جمہوری کلچر تصور کرتے ہیں۔ہم ایک منتخب وزیر اعظم کے حق میں کالعدم تنظیموں کی ریلی کو ہی ’’عوامی طاقت‘‘ کا مظہر قرار دیتے ہیں۔سوشل میڈیا پر میں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ اگر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کو پارلیمنٹ کا وقار اتنا ہی عزیز ہے،اور وہ اس قومی ادارے کی حفاظ اور آئین و قانون کی پاسداری کے حق میں اسمبلی میں اتنی لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں تو ایک ایسے وقتمیں جب ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے،انھیں چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لیں،بجائے اس کے وہ ریاست کی جانب سے کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کو اپنے حق میں سڑکوں پر لے آئے۔ایسا انھوں نے کیوں کیا؟کیا اس سے یہ پیغام نہیں جاتا کہ میاں صاحب عوامی طاقت کے بجائے اپنے حق میں طاقت کا مظہر کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو سمجھتے ہیں۔کیا کالعدم تنظیموں کی جانب سے نون لیگ کی ریلیوں میں شرکت اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے اندر اپنی ترجمان جماعتوں کی ’’نمائندہ اتحادی‘‘ جماعت کی اس مشکل میں مددگار ہوں گی؟غلطی انسان کو تباہ نہیں کرتی بلکہ غلطی پر اصرار نہ صرف انسانوں بلکہ اقوام تک کو لے ڈوبتا ہے۔نون لیگ کی حکومت کا مسئلہ مگر یہی ہے کہ وہ عوام کے بجائے خاندان ،رشتے داروں اور انتہا پسند کالعدم تنظیموں کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور ہمیشہ اس تکون کا تحفظ کرتی ہے۔اس باہمی تعلق پر انشاء اللہ کسی اور نشست میں بات ہو گی۔سرِ دست وزیر اعظم صاحب کی اس درخواست کو دیکھتے ہیں جو انھوں نے’’جمہوریت ‘‘ کے بچاؤ کے لیے آرمی چیف سے کی ہے۔جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے اس وقت آرمی چیف اس سیاسی مسئلے کا کوئی نہ کوئی’’فوجی‘‘ حل نکال چکے ہوں گے۔ فوجی حل سے مراد مارشل لاء قطعی نہیں مگر جب ملک کو کوئی بڑا سیاسی مسئلہ آرمی چیف کے دفتر میں حل ہوراہ ہو تو اس حل بہر حال نہیں کہا جائے گا۔
اس امر میں کلام نہیں کہ ہمارے ہاں سیاست دانوں نے جمہوریت کی ناکامی کی وجہ ہمیشہ تیسری قوت یعنی فوج کا قرار دیا لیکن اس حقیقت سے انکار کیسے ممکن ہے کہ یہ سیاستدان ہی ہیں جو ہمیشہ فوج کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اقتدار میں چلی آئے۔ہماری قومی تاریخ اس امر کی شاہد ہے۔موجودہ سیاسی بحران کو ہی لے لیجئے،انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کی لاہور سے روانگی سے لے کر اسلام آبد کے ریڈ زون میں آمد تک،وزیر اعلیٰ پنجاب اور وزیرِ داخلہ صاحب بار بار آرمی چیف سے ملاقاتیں کر کے اس سیاسی مسئلے کا حل مانگتے رہے مگر وہاں سے جواب یہی آتا کہ سیاست دان اس مسئلے کو سیاسی اندازمیں مذاکرات کے ذریعے حل کریں،لیکن ایک ہدایت بھی وہاں سے ملتی کہ احتجاج کرنے والوں پر تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا۔جمعرات کا دن ’’یومِ انقلاب‘‘ قرار دیا جا چکا تھا،اور اسی شام عمران خان بھی کوئی اہم اعلان کرنے والے تھے کہ دونوں رہنماؤں نے اپنے اپنے پیروکاروں کو ڈٹے رہنے اور تیار رہنے حکم دیا، اسی دوران ٹی وی پر یہ خبریں آنا شروع ہو چکی تھیں کہ وزیر اعظم صاحب نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ اس سیاسی بحران کو حل کرنے میں حکومت کی مدد کریں۔مگر جواب میں آرمی چیف صاحب نے کیا کہا؟ کہ سر آپ پہلے ماحول تو بنائیں،کیسا ماحول؟فرمایا جناب پہلے
سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر تو کاٹیں۔حکومت نے کم و بیش ڈھائی ماہ نے بعد جو ایف آئی آر کاٹی یہ بھی آرمی چیف کے دباؤ پر۔ہوا مگر یہ کہ حکومت کی جانب سے کاٹی گئی ایف آئی آر کو ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے مسترد کر دیا اور کہا کہ اس میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہی نہیں۔اسی اثنا میں ڈاکٹر صاحب اور عمران خان نے دوبارہ اپنے حامیوں سے خطاب کیا اور انھیں بتایا کہ آرمی چیف صاحب کا پیغام ہے کہ اگر آپ لوگ پاک آرمی کو ثالث تسلیم کریں تو اس مسئلے کے حل کے لیے فوج تیار ہے۔ وہی پاک آرمی جو دہشت گردوں کے خلاف جہاد کر رہی ہے ۔رات گئے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اور عمران خان صاحب کو آرمی چیف نے جی ایچ کیو بلوایا۔بلاشبہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے فوج کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا،خان نے رات گئے اپنے خطابمیں کہا کہ آرمی چیف کو بتا دیا ہے کہ جب تک میاں نواز شرف وزیر اعظم ہیں،انصاف نہیں مل سکتا۔بے شک آرمی چیف نے فریقین کو یقین دھانی کرائی ہو گی، بے شک آرمی اب جو بھی اقدام کرے گی وہ ملکی مفادت اور ریاستی تحفظ کا مظہر ہو گا۔
سوال مگر یہ ابھرتا ہے کہ وہ میاں نواز شریف صاحب اور وہ’’خواجگان‘‘ جو اسمبلی میں پارلیمنٹ کی بالادستی کی کا ورد کرتے نہیں تھکتے تھے وہ عوام کو کوئی جواب دے سکیں گے؟ کہ کس طرح سیاستدان ناکام ہوئے اور ہمیشہ کی طرح مسئلے کو پاک فوج نے حل کیا۔ایک سوال محمود خان’’اچک زئی‘‘ صاحب سے بھی بنتا ہے۔جن کی جمہوریت نے پورے بلوچستان کو ایک میڈیکل کالج دیا،وہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنے کے شرکا کو دھمکیاں دینے کے بجائے ان مطالبات پر غور فرماتے جو دھرنے کے شرکا کے ہیں تو ممکن ہے بات جی ایچ کیو تک نہ جاتی۔کیا ان جمہوریت پرستوں نے نون لیگ پر دباؤ ڈالا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے مقتولین کی ایف آئی آر کاٹے؟آخری تجزیے میں چند خاندانوں اور چند گروہوں کے مفادات کا تحفظ کرنے والی جمہوریت بے شک ایسے ہی انجام سے دوچار ہوا کرتی ہے۔ہمارے سیاستدان حضرات نے تاریخ سے سیکھنا ہی کیا ہے؟میاں برادران تو بالکل بھی نہیں۔
اگر وزیر اعظم کا استعفی فوری نہ بھی آیا تو ایک آدھ ماہ بعد آجائے گا۔ کیونکہ مطالبہ بہر حال یہی ہے۔فوج ضامن ہو گی اور اس خاندانی بادشاہت جو جہموریت کے لباس میں چھپی ہوئی ہے کا انجام بھی وہی ہونے والا ہے جو نظر آرہا ہے۔جمہوریت چالاکیوں سے بہرحالنہیں بچائی جا سکتی،اس میں عوام کو ڈلیور کرنا پڑتا ہے۔ نون لیگ والوں نے مگر عین اس مرحلے پر جب حکومت مشکلات میں ہے ایک چال چلی اور ایک سروے کرا لائی کہ میاں صاحب پاکستان کے مقبول ترین رہنما ہیں۔اب وہی مقبول ترین رہنما آرمی چیف سے التجا کر رہے ہیں کہ خدارا میری ’’مقبولیت‘‘ کو بچا لیں۔کیا ایک فرد اور اس کے خاندان کی جمہوریت اس قدر ضروری ہے کہ 20کروڑ عوام کو کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے؟لوگ اپنے حقوق کے لئے لڑنا سیکھ چکے ہیں۔’’مقبول‘‘ وزیر اعظم باقی رہیں یا ٹیکنو کریٹس کی حکومت آئے، نئے انتخابات میں پی پی پی کی حکومت بنے یا پی ٹی آئی حکومت بنائے، اب جو عوام کے مفادات کا خیال کرے گا اسے ہی دوام ہے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں