ایک زمانہ تھا جب راولپنڈی کے شہری ٹریفک پولیس کے ناراوا سلوک کی شکایت کیا کرتے تھے لیکن یہ بات نئی نسل کے لیے باعثِ حیرت ہے جن کا واسطہ روایتی ٹریفک پولیس سے نہیں پڑا جو ہر چوراہے پر ہر دوسری گاڑی کو روکنا اور معملات کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے دنیا بھر میں ٹریفک پولیس کا مروجہ اصول ہے کہ مخصوص حالات کے بغیر جن میں کچھ امور کے لیے گاڑیوں کو روکنا اور اُن کے کاغذات چیک کرنا ناگزیر ہوتا ہے ورنہ عام حالات میں جدید ٹریفک نظام کے تحت کسی غلطی کے ارتکاب کے بغیر گاڑیوں کو روکنا کوئی صحت مند عمل نہیں رہا راولپنڈی سمیت پنجاب کے بڑے شہروں میں روایتی ٹریفک پولیس کی جگہ ورڈنز کی تعیناتی جس کا تجربہ ق لیگ کی اس وقت کی پنجاب حکومت نے کیا انتہائی شاندار نتائج کا حامل ثابت ہوا کم از کم گریجویٹ جدید تربیت یافتہ اہلکار محدود وسائل اور نامسائد حالاتِ کار کے باوجود بڑے شہروں میں روایتی ٹریفک پولیس کے مقابلے میں ایک بہتر متبادل ثابت ہوئے ہم راولپنڈی کے باسی ایک دہائی سے زیادہ عرصے میں اس نظام کے ثمرات سے مستفیذ ہو رہے ہیں مسائل اب بھی ہیں ٹریفک جام اور تجاوزات ایک بڑا مسلۂ ہیں لیکن ٹریفک ورڈنز کی جانب سے شہریوں کو نامناسب اور دیگرمسائل اور قانونی پیچیدیوں میں دانستہ اُلجھا کرمُٹھی گرم کرنے کی روایت ماضی کا قصہ بن چکی ہے اب ایک ہی بات جو حقیقت ہے اور یہاں زبان زدِ عام ہے کہ اب آپ شہر میں گاڑی چلائیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا جب تک آپ کوئی غلطی نہیں کریں گے۔لیکن کیا یہ بات پورے پنجاب پر لاگو ہوتی ہے ؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے ایسا نہیں ہے ہمارے قریبی ہمسایہ ضلع چکوال جہاں اب تک روایتی ٹریفک پولیس کا راج ہے صورتِ حال جوں کی توں ہے راولپنڈی اسلام آباد سے سیاحت کی غرض سے کلر کہار کٹاس راج کے مندر اور کھیوڑا کان جانے والے لوگوں کی اکثریت یہ شکایت کرتی ہے کہ چکوا ل میں داخل ہوتے ہی وہاں کی ٹریفک پولیس سے سامنہ اُن کے لیے ناخوشگوار تجربہ رہا ہے اُن کے بقول وہ تمام روائتی انداز جن کو وہ مدت ہوئی فراموش کر چکے ہیں چکوال میں اُن کا سامنہ کرنا پڑتا ہے جن میں بلا وجہ گاڑیاں روکنا کاغذات کی چیکینگ اور آخر میں کسی بھی وجہ سے لازمی چالان کی پرچی جو ہر صورت تھمائی جاتی ہے جیسے کہ یہی اصل مقصد ہو ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ راولپنڈی سے سیاحت کے لیے چکوا ل کی طرف جانے والے خاندانوں کو وین اور دیگر گاڑیوں والے اول تو صاف انکار کردیتے ہیں کیونکہ اُن کو بغیر کسی وجہ کے بھی اپنے چالان کا یقین ہوتا ہے اگر وہ جانے پر راضی بھی ہوں توپہلے گاڑی کرایہ پر لے کر جانے والوں سے چالان کی رقم اور پھر کسی اور تاریخ میں دوبارہ وہاں جا کر اپنے کاغذات واگُزار کرنے تک کے اخراجات کی ادئیگی کی شرائط رکھتے ہیں یہ بات نہ صرف مہمان کی حیثیت سے آئے سیاحوں کے دلوں میں کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں کر رہی ہے بلکے وہاں کی سیاحت کے فروغ کے لیے بھی سودمند نہیں۔{jcomments on}
109