قارئین کرام! پاکستان میں منافع بخش کاروبار زمینوں کی خریدوفروخت کو سمجھا جاتا ہے، اس میں حصہ بقدر جثہ شامل ہونے والے لکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بن گئے
لیکن جن کی زمینیں ہوتی ہیں وہ کسمپرسی کی زندگی ہی گزار رہے ہوتے ہیں، کہتے ہیں پیسے کو پیسہ کھینچتا ہے تو اسی طرح کی صورتحال پراپرٹی کے کاروبار میں بھی ہوتی ہے
کہ غیر معروف جگہ کو ہزاروں روپے میں خرید کر اسی جگہ پہ ہزاروں لگا کر پھر اسی جگہ کو لاکھوں روپے مرلہ کے حساب سے اسی عوام کو فروخت کیا جاتا ہے۔کچھ ایسی ہی صورتحال ہمارے گوجرخان کے نواح میں چند سال قبل آنے والی نجی سوسائٹی کی ہے، زرخیز اور زرعی زمین کو خرید کیا گیا
اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی گئی کہ یہاں ہاوسنگ سوسائٹی بنے گی، لوگوں سے ایک لاکھ، ڈیڑھ لاکھ اور دو لاکھ روپے کنال کے حساب سے زمینیں خرید کی گئیں، اب وہیں پہ زمین 8 سے 10 لاکھ روپے مرلہ اور ڈیڑھ کروڑ فی کنال کے حساب سے فروخت کی جا رہی ہے
، ابھی تک اس سوسائٹی یعنی نیو میٹرو سٹی کی رجسٹریشن نہیں ہو سکی اور اس کی بنیادی وجہ یہاں کے سابق اسسٹنٹ کمشنر مہر غلام عباس ہرل کی حقائق پہ مبنی تفصیلی رپورٹ ہے
جو راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، کمشنر راولپنڈی اور ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کے دفاتر میں پڑی ہے، جس کے مطابق زرعی زمین پہ سوسائٹی نہیں بن سکتی یہاں زرعی زمین پہ بلڈوزر چلائے گئے ہیں
، جہاں برساتی نالے ہوں وہاں سوسائٹی نہیں بن سکتی اور یہاں سے دو برساتی نالے گزرتے ہیں، اس سوسائٹی میں قبرستان کی جگہ بھی سرکاری طور پر موجود ہے اور قبرستان کی جگہ پہ کسی صورت قبضہ نہیں ہو سکتا، نیز دیہہ شاملات اور سرکاری نمبرز کی زمین پہ قبضہ کیا گیا ہے جو قانونی طور پہ سوسائٹی کے نام منتقل ہونا ممکن نہیں، ان وجوہات کی وجہ سے یہ سوسائٹی ابھی تک غیر رجسٹرڈ ہے مگر نوٹوں کی چمک کہیں یا لمبے ہاتھ کہ اس سوسائٹی کو بغیر رجسٹریشن محکمہ آئیسکو جہلم سرکل نے ٹرانسفارمر لگا کر دیئے ہوئے ہیں جن سے یہ بجلی استعمال کر رہے ہیں
اور یہ سرعام ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور اس میں سابق اسسٹنٹ کمشنر گوجرخان مراد حسین نیکوکارہ اور سابق ایس ای جہلم سرکل آئیسکو ذاکر حسین پر مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزامات ہیں کہ انکی مکمل پشت پناہی سے انکو ٹرانسفارمرز لگا کر دیئے گئے
اور یہ غیر رجسٹرڈ سوسائٹی محکمہ واپڈا (آئیسکو) کی بجلی خلاف قانون استعمال کر رہی ہے یہ تو خیر ابتدائی باتیں تھیں مگر اصل بات کی طرف توجہ مبذول کراتا چلوں تو نیو میٹرو سٹی میں پلاٹس کی غرض سے فائلیں لینے والے ہزاروں خریدار اس وقت بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، جنکے بھائی بیٹے فیملی بیرون ممالک ہیں
وہ تو بغیر کسی پریشانی کے ان کو مال دے رہے ہیں مگر جن لوگوں نے یہ سوچا تھا کہ قسطیں ادا کر کے یہاں پر اپنے مکانات تعمیر کریں گے یا پھر قسطیں مکمل ہونے پر اس پلاٹ کو منافع میں بیچ کر کہیں
اور جگہ لے کر اپنا گھر بنائیں گے وہ بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، سوسائٹی کے ہیڈ آفس سے فون کر کر کے عوام کو قسطیں یکمشت جمع کرانے پر ڈسکاونٹ کا لالچ دیا گیا جب عوام کی بڑی تعداد نے یکمشت رقم جمع کرا دی تو ڈویلپمنٹ چارجز کا پنڈورا باکس کھول دیا گیا جس سے ہر شخص حیران و پریشان ہو گیا
کہ قسطیں تو جیسے تیسے دے لی ہیں اب یہ ڈویلپمنٹ چارجز کہاں سے دیں، اور ڈویلپمنٹ چارجز مکمل نہ دینے تک پلاٹ ملنے کے چانس بھی نظر نہیں آ رہے اب جنہوں نے زیور بیچے یا جمع پونجی قسطوں میں لگا دی وہ غش کھا گئے کہ اب لاکھوں روپے ڈویلپمنٹ چارجز کہاں سے دیں گے
، اوپر سے انکو فون کر کر کے پریشان کیا جا رہا ہے کہ اگر آپ لوگ ڈویلپمنٹ چارجز نہیں دیں گے تو آپکا پلاٹ کینسل کر دیا جائے گا جنکے پاس پیسے ہیں وہ تو ہنسی خوشی چارجز دے رہے ہیں
مگر جو چارجز دینے کی سکت نہیں رکھتے انہوں نے سوچا کہ فائل بیچ کر اپنے پیسے نکلوا لیتے ہیں تو جب وہ ڈیلرز کے پاس گئے تو انکو ہزاروں وولٹ کے جھٹکے لگے کہ ڈیلرز نے انکی فائل 70 فیصد نقصان پہ خریدنے کی حامی بھری، یعنی اگر آپ نے لاکھ روپے کی فائل لی ہے
تو اب آپکو تیس ہزار ملیں گے اس صورتحال میں خریدار سخت ذہنی کوفت کا شکار ہیں اب کمپنی کی جانب سے ایک اور آفر دی گئی ہے کہ اپنی اقساط و ڈویلپمنٹ چارجز کلیئر فائل دیں
اور اس کے ساتھ لاکھوں روپے مزید دیں جس کے بدلے ارلی برڈ میں کمرشل و گھریلو پلاٹ حاصل کریں اور اپنی تعمیرات کریں لیکن ان کمرشل یا گھریلو تعمیرات کا کسٹمر کو فائدہ کیا ہے؟
؟ کچھ بھی نہیں کسٹمر انکی اس نئی سکیم کے تحت لاکھوں روپے دے کر پلاٹ لیتا ہے اور کروڑوں روپے لگا کر گھر بناتا ہے تو اسکو سہولیات کیا ملیں گی
؟؟ کچھ بھی نہیں پانی کے لیے بور آپکو خود کرانا پڑے گا، بجلی کے ماہوار ہزاروں روپے کے چارجز آپکو اسی سوسائٹی کو دینا پڑیں گے کیونکہ بجلی کا میٹر آپکے نام پہ نہیں لگ سکتا،
گیس کا کنکشن آپکو نہیں مل سکتا، ٹیلیفون کا کنکشن آپکو نہیں مل سکتا، کیونکہ سوسائٹی غیر رجسٹرڈ یعنی غیر قانونی ہے اگر کمرشل تعمیرات کرتے ہیں تو آپکا پلازہ یا دکان کرائے پہ نہیں لگے گی
کیونکہ عدم سہولیات کی بناء پر یہاں کون احمق کاروبار کرے گا؟؟ میری آج کی تحریر کا مقصد اس سوسائٹی کے حوالے سے عوام کو لاحق خطرات سے آگاہ کرنا ہے
کہ عوام مزید رقم انویسٹ کرنے سے باز و ممنوع رہے اور انکی چکنی چپڑی باتوں میں نہ آئیں کیونکہ چار سے پانچ سال تک اس سوسائٹی کے ڈویلپ ہونے کے چانسز نظر نہیں آ رہے
اور اسکو راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے قانونی تسلیم کرنا تو ممکن ہی نہیں، اب تو ڈیلرز بھی پریشان ہیں کہ ہم پیسے پھنسا بیٹھے ہیں اب سالوں ہمیں بھی انتظار کرنا پڑے گا
کہ ہماری رقم اور منافع کب ہمیں ملے گا تو ایسی سوسائٹی جس کا ڈیلر پریشان ہے اس کے کسٹمر کی حالت کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں اپنا خیال رکھیے گا
اور اس آگاہی پیغام کو دیگر لوگوں تک بھی پہنچائیے گا تاکہ لوگ مزید اپنا نقصان کرنے سے بچ سکیں۔۔ والسلام