168

نوشین حسین نوشی سریلی آواز کی شاعرہ

پاکستان میں شاعرات کا کوئی شمار نہیں لیکن آوازوں کے اس گھنے جنگل میں دیگر شاعرات کی ان آوازوں میں نرم اور گداز اور سریلی آوازیں بھی تار رگ سنگ کی مانند پھیلی ہوئی ہیں۔

نوشین حسین نوشی کی آواز بھی کم سریلی نہیں ہے۔ آپ غزل اور نظم کی شاعرہ ہیں۔ آپ اردو اور پنجابی زبان میں شعر کہتی ہیں۔ آپ کی غزلوں اور نظموں میں رعنائی اور توانائی پائی جاتی ہے۔ آپ بے باک، جرات مند اور کھلے ذہن کی خاتون ہیں۔آپ گوجرانوالہ کی پہلی شاعرہ ہیں

جو صداکار بھی ہیں۔ آپ نے انڈیا اور پاکستان کے ان گنت شعرا کا کلام پڑھا۔حال ہی میں آپ کی کتاب چھڑھدے پنجاب چھپی جس کا نام آکھیا سی نا لوگ نئیں چنگے ہے

۔ ہم ان کا انٹرویو قارئین کے لیے لے کر آئے ہیں۔ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئی؟ جی میں 14مارچ 1987ئکو گوجرانوالہ کے قصبہ ایمن آباد میں پیدا ہوئی۔ میری والدہ محترمہ کا نام پروین طالب حسین ہاشمی ہے اور والد صاحب کا نام طالب حسین ہاشمی ہے۔ اور میرا اصل نام نوشین حسین نوشی ہی ہے

اور گھر میں مجھے پیار سے سب شہزادی کہتے ہیں۔ میں ساتویں کلاس میں تھی جب پہلا شعر لکھا پہلا شعر اردو میں لکھا تھا اور اس کے بعد پنجابی زبان میں لکھنا شروع کیا۔

پہلی پنجابی نظم ‘دل کچدا کھوڈونا لکھی’
میں نے ابتداء میں جوا شعار لکھے
نہ کھولو ڈائری میری
اس میں میرے صنم کی بے وفائی ہے
کھولو گے تو اڑ جائے گی
میں نے پھولوں سے خوشبو چرائی ہے
آپ ایک ذاکرہ کی حیثیت سے بھی جانی پہچانی جاتی ہیں؟ اَلْحَمْدُلِلّٰہ میں ایک ذاکرہ ہوں اور مجھے نعت خوانی کے حوالے سے بھی جانا جاتا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے میں اک بیوٹیشن ہوں

۔شاعری مجھے میرے گھر سے ملی ہے۔ میرے ماموں جان محترم ضمیر علی ضمیر صاحب جو انڈیا پنجاب مالیر کوٹلہ میں رہتے ہیں جی ان کی طرف سے مجھ میں شاعری کا شوق آیا۔میرے استاد محترم جناب عبیداللہ توحیدی صاحب ہیں۔ میں نے زیادہ تر پنجابی زبان میں لکھا ہے

۔ غزل،نظم، قطعہ ماہیے، بولیاں۔اردو زبان اور پنجابی دونو ں بہت محترم زبانیں ہیں ارود قومی زبان اور پنجابی میری ماں بولی مجھے دونوں پیاری ہیں۔ مجھے مادر ملت ایوارڈ ملا گوجرانوالہ سے اور بھی بہت سے ایوارڈز مل چکے ہیں۔ مجھے ماجد مشرقی ایوارڈ ملا گوجرانوالہ سے اور بھی بہت سے ہیں۔اور ہاں جی چھڑھدے پنجاب سے مجھے دو چادر اور سات اعزازی اسناد بھی مل چکی ہیں۔میری خوش نصیبی ہے

کہ میرے شہر گوجرانوالہ کا ادبی ماحول بہت اچھا ہے۔ میں انڈ یا اور پاکستان کے ان گنت شعرا کے کلام کو اپنی آواز دے چکی ہو اور اینکر پرسن ہوں فیس بک پر لایو پروگرام کرتی ہوں پنجابی سانجھی پھلواری کے نام سے۔ میں گوجرانوالہ کی واحد پہلی لڑکی ہوں جو صداکار ہوں میں نے بہت سے شاعروں کے کلام کو اپنی آواز دی پاکستان اور انڈیا کے بہت سے شاعروں کا کلام پڑھا خاص طور پے

پنجاب والے شاعروں کا۔ میں پہلی شاعرہ گوجرانوالہ سے ہوں جس کا کلام انڈیا میں شائع ہوا اور پسند بھی کیا گیا اور میری پہلی کتاب چھڑھدے پنجاب چھپی جس کا نام ہے آکھیا سی نا لوگ نئیں چنگے۔اور اب لوگ مجھے اپنی بیٹی اور بہن اور ماں کا درجہ دیتے ہیں مجھے بہت اچھا لگتا ہے

جب مجھے نوشی بہن نوشی بیٹی اور نوشی ماں کہتے ہیں میرے اپنے احباب میں میڈیا میں آ کے رشتوں کی دولت کمائی ہے اوربہت خوش بھی ہوں۔ مجھے بابا بھلے شاہ کا کلام پسند ہے۔ میرے ماما جی ضمیر علی ضمیر اور پاکستان میں ابھی کے شاعروں میں عمران ساگر صاحب، رضوان کامل صاحب،طارق فیاضی، حافظ عبدلغفار واجد صاحب اور ندیم افضل ندیم صاحب کا کلام پسند ہے

اور شوق سے پڑھتی ہوں۔ اسی طرح مجھے اپنا ہر اک شعر بہت پسند ہے میں نے پاکستان کے اور پاکستان کے باہر سے ان گنت شاعروں کے کلام کو اپنی آواز دی اور جی میرے ادبی احباب مجھے گوجرانوالہ دی شیرنی بھی کہتے ہیں اور مجھے دبنگ شاعر کے نام سے لوگ جانتے ہیں۔
عشق دے تک لے روگ نئیں چنگے
آکھیا سی نا لوک نئیں چنگے
منکر رب توں ہو جاویں گی
غیراں نال سنجوگ نئیں چنگے
کیہ کراں نئیں سوندیاں اکھاں
ہجر تیرے وچ روندیاں اکھاں
ناں توں ایناںچنگا لگدوں
ناں ایہ تیریاں۔۔ ہوندیاں اکھاں
جگراتے دی سولی چڑھ کے
ہنجواں ہارپروندیاں اکھاں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں