نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تعریف کرنا کے ہیں لیکن اصطلاحا یہ لفظ مدحت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیلئے وقف ہے نعت کا موضوع ادب کی ایک مقدس صنف ہے جس میں شاعر کے کردار مذہبی رجحان اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ صحابہ وسلم سے نسبت کا پتہ چلتا ہے
اس کا ہر شعر اس کے سچے جذبات و احساسات کی ترجمانی کر رہا ہوتا ہے
شاعر لکھنوی کے بقول:
” نعت کی کیمیا کی تیاری کا عمل اتنا آسان نہیں کہ جو چاہے اس سے سونا تیار کر لے اس عمل میں احترام و عقیدت احتیاط و اعتدال توازن تفصیل و اجمال اظہار و اخفاء اور وجدان و عرفان کے ایسے نازک و دشوار اور تلوار کی دار پر چلنے والے مرحلے سے گزرنے کا ہنر بھی انہی کے حصے میں آتا ہے جومعرفت رسول صلی اللہ علیہ والہ و صحابہ وسلم کا ادراک رکھتے ہیں۔” نعت ایک نعت ایک صنف سخن ہی نہیں ہے بلکہ وظیفہ حیات ہے
ہر مسلمان کے دل میں خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وصحابہ وسلم کی محبت اور عشق کا جذبہ ہر وقت موجزن رہتا ہے جو انسان جتنا اپنے جذبے میں اور عشق میں سچا ہو گا اس کے پیش نظر اور توفیق الہی کے مطابق اس عظیم عمل میں حصہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنے علم و فن کے پیش نظر ہر سو مدحت رسول کے پھول بکھیرتا رہے اسی دوران اسے نہایت احتیاط کی ضرورت بھی ہوتی ہے اور اس کے ہوش و حواس اور اوسان کا بحال ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ نعت کا معاملہ انتہائی حساس اور نازک ترین ہے
اور کیوں نہ ہو یہ معاملہ ہی محبوب الہی کا ہے جس کی بارگاہ میں نگاہیں عقیدت و احترام سے جھکی رہتی ہیں لب و لہجہ دھیمہ، آواز آہستہ اور سانسوں کی آمد و رفت کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے تھوڑی سی بے احتیاطی بھی ایمان کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتی ہے
ارشاد باری تعالی ہے۔
” اے ایمان والو نہ بلند کیا کرو اپنی آوازوں کو اپنے نبی کی آواز سے اور نہ زور سے آپ صلی اللہ علیہ والہ و صحابہ وسلم کے ساتھ بات کیا کرو جس طرح ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہو کہیں ضائع نہ ہو جائے تمہارے اعمال اور تمہیں
خبر تک نہ ہو”
اب ہم بات کریں گے ایک ایسے عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ صحابہ وسلم کی جس نے اپنی نعت کا ہر شعر عشق رسول میں ڈوب کر لکھا ہے اور ان کا شمار حاصل پور کے معتبر شعرا ء میں ہوتا ہے وہ قانون کے شعبے سے بھی منسلک ہیں اس بات سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ انہوں نے نعتیہ میدان میں ” نور کا جلوہ” او”ر مدحت رسول” صلی اللہ علیہ والہ صحابہ وسلم کا قادر قبل اضافہ کیا ہے نعت گوئی کے حوالے سے اعظم سہیل ہارون صاحب کو پرکھا جائے تو انہوں نے بہت عمدہ لکھ رہے ہیں۔ اعظم سہیل صاحب کے دل میں بچپن ہی سے گھر کے دینی ماحول کی بدولت نعت گوئی کا شوق جاگزیں ہو گیا تھا۔کالج کے زمانے سے ہی آپ نے نعت لکھنا شروع کر دی
اور ساتھ غزلیں بھی کہنا شروع کر دیں تھیں۔ اعظم سہیل صاحب کے دو نعتیہ مجموعے اور دو شعری مجموعے زیور طب سے آراستہ ہو چکے ہیں۔ زیر نظر نعتیہ مجموعہ” نور کا جلوہ “کو نستعلیق مطبوعات نے سن 2018 ئمیں شائع کیا اس مجموعے کا انتساب اعظم صاحب نے اپنے دادا جان الحاج فقیر مرحوم کے نام کیا ہے جو سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وصحاب وسلم تھے زیر نظر نعتیہ مجموعہ “نور کا جلوہ “میں 46 نعتیں شامل ہیں. جن کا ہر شعر عشق رسول میں ڈوب کر نہایت عقیدت و احترام سے لکھا گیا ہے
. زیر نظر نعتیہ مجموعہ” نور کا جلوہ” کے آغاز میں درج ذیل ناقدین محمد امین ساجد، ریاض ندیم نیازی، راجہ کوثر سعدی، صبا حیدر اور حسن عباسی نے اپنے تاثرات قلم بند کیے ہیں۔ اعظم سہیل ہارون صاحب کے متعلق صبا حیدر رقم رقم طراز ہیں۔”نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وصحاب وسلم رقم کرنے کی سعادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ہوتی جسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم چن لیں وہی سرکار کی مداح رسائی کر سکتا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اعظم سہیل ہارون صاحب کو سرکار ختمی المرتبت صلی اللہ علیہ والہ صحابہ وسلم نے اپنے ثناخوانوں میں چن لیا ہے
“۔زیر نظر نعتیہ مجموعے کے کچھ مخصوص پہلو ہیں پہلا پہلو یہ ہے کہ یہ نعتیہ شاعری گہری عقیدت اخلاق و محبت کی راہ متعین کرتی ہے اس نعتیہ مجموعے کا ہر شعر شاعر کے احساسات اور جذبات آ ئینہ دارہے جس میں سر فہرست عشق رسول اور مدینہ اقدس کی حاضری کی گہری تڑپ ہے
کلام ملاحظہ فرمائیں:
ملا ہے اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ہم کو سہارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وسلم مدینے میں بلا لیجیے خدارا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
اس نعتیہ شاعری میں سچے گہرے حقیقی احساسات و جذبات موجزن نظر آتے ہیں اور ساتھ ہی اسوہ حسنہ اور اہل بیت سے عقیدت بھی نظر آتی ہے
دوم شاعری پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اشعار صرف دنیا کے حصول کا ذریعہ ہی نہیں ہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے صحفہ قرطاس پر رقم کیا ہے وہ تخلیقی سطح پر دل و جان سے محسوس بھی کیا ہے۔
بقول اعظم سہیل ہارون صاحب
ان کی مدحت میں اپنا وقت گزارا جائے
یاد سرکار میں ہر سانس نکھارا جائے
سہیل ہارون صاحب کے کلام میں فکر کی گہرائی اور فنی نزاکتیں بھی پائی جاتی ہیں. وہ بہت محتاط انداز سے قلم کو سنبھالتے ہوئے گنبد خضری کو نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے ان کا کلام ملاحظہ فرمائیں.
آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جو روزہ کی طرف دیکھ رہے ہیں
ہم گنبد خضری کی طرف دیکھ رہے ہیں
عشق سرکار میں رو لوں تو وضو ہوتا ہے
گنبد خضری کو جو دیکھوں تو وضو ہوتا ہے
فنی اعتبار سے اگر نعتیہ مجموعہ “نور کا جلوہ “کا مطالعہ کیا جائے تو آپ کے کلام میں جا بجا قافیہ، ردیف، استعارہ، تلمیحات، محاورات اور سوزوگداذ کے پھول بکھرے نظر آتے ہیں۔سہیل صاحب کا انداز نہایت لطیف اور سہج سہج سا ہے جیسے شاعر بذات خود اپنی شاعری سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ ہر لفظ نہایت سوچ سمجھ کر عقیدت و احترام سے جھوم جھوم کر ادا کر رہا ہو ان کے شاعری میں
گنائیت کا عنصربھی واضح ہے اس حوالے سے انہوں نے نئے رنگ اور آہنگ کو اپنایا ہے.
ان کے کلام سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں.
نعتوں کا میرے لب سے حوالہ نہیں جاتا
اطراف سے میرے نور کا ہالہ نہیں جاتا
یہ فیض ہے ان کا یہ وقت ان کی عطا ہے
ملتا ہے مجھے اتنا کہ سنبھالا نہیں جاتا
اعظم سہیل ہارون صاحب نے اس نعتیہ کلام کو عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ صحابہ وسلم میں ڈوب کر جتنی محنت اور جانفشانی سے صفحہ قرطاس پر منتقل کیا ہے اس کے لیے ان کی یہ کاوش قابل تحسین ہے۔
راجا حیدر کوثری صاحب ان کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے دعا کے لیے ان اشعار کا سہارا لیتے ہیں۔
تمام عمر کی محنت وصول ہو جائے
ہ
میں ایک نعت کا مصر ع قبول ہو جائے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی اس کاوش کو قبول و منظور فرمائے اور یہ نعتیہ مجموعہ یقینا نعت کے میدان میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔