تحریر:راجہ طاہر
پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے تقریبا تمام حکومتوں نے کسی نہ کسی طور پر میڈیا پر قدغن لگانے کی کوشش کی یہ کوشش کی اس بار کامیاب بھی ہوئی لیکن عملی طور پر صحافیوں نے ایسی کوششوں کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا میڈیا کو کنٹرول کرنا ہر حکومتی پالیسی ہوتی ہے موجودہ حکومت نے آنے سے پہلے تو میڈیا اور آزادی اظہار رائے کے بارے میں باتیں تو بہت کی تھی لیکن اب جب بھی حکومت کو تین سال ہو چکے ہیں تو ان لوگوں نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مجوزہ بل جسے میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے نام سے جانا جاتا ہے کا مسودہ تیار کروایا اور مختلف وفاقی وزرا نے اپنے اتحادی فارم اور اینکر پرسن کے ذریعے اس کی تشہیر شروع کر دی اسی دوران پاکستان بھر کی صحافتی تنظیموں نے خطرے کی بو محسوس کرتے ہوئے عملی طور پر جدوجہد کا آغاز کیا اس جدوجہد میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد پی ایف یو جے اور آر آئی یو جے نے ملک بھر کی چھوٹی بڑی صحافتی تنظیموں کے ساتھ مل کر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران دھرنے کا اعلان کیا اس دھرنے میں پاکستان بھر کی صحافتی تنظیموں ملک بھر کے پریس کلب اور بڑے چھوٹے صحافیوں نے بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور ایک ایسا بل جس کے پاس ہونے کے بعد صحافیوں پر اور میڈیا اداروں پر بڑی قد غن لگائی جاسکتی تھی کے خلاف ایک منظم اور بھرپور تحریک کا آغاز کیا ملک بھر کی صحافتی تنظیموں نے مختلف سینئر صحافیوں کے ساتھ اس بل کی مخالفت کرنے کے عزم کا اعادہ کیا مشاورتی عمل کے دوران طے پایا کہ 12 ستمبر کوتمام صحافی اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب میں جمع ہوں گے اور وہاں سے ریلی کی صورت میں پارلیمنٹ ہاوس کے سامنے جمع ہوں گے اور جس دن صدرمملکت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے اس وقت وہاں پر دھرنا دیا جائے گا اس احتجاج میں پاکستان بھر کی چھوٹی بڑی تنظیموں کے ساتھ ساتھ پوٹھوہار یونین آف جرنلسٹس نے بھی اپنی تمام تحصیلوں سے کارکنوں کو متحرک کرکے بھرپور ساتھ دیا ریلی شام پانچ بجے نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے شروع ہوئی اور اسلام آباد کے مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے احتجاجی دھرنے کی شکل اختیار کر گئی اس احتجاجی دھرنے میں وہ تمام اینکر بھی شامل تھے جن کو حکومتی دباؤ پر آف ائر کیا گیا ہے ان میں حامد میر اور مظہر عباس بھی شامل تھے جبکہ دیگر لوگوں میں سلیم صافی غریدہ فاروقی مظہر عباس اور دیگر شامل تھے جبکہ مختلف چینل پر پروگرام کرنے والے اینکر پرسن اپنے تعاون کا یقین دلانے کے لیے ڈرنے میں وقتا فوقتا آتے رہے دھرنے کا دوسرا دن بہت اہم تھا جب صحافیوں کے اس دھرنے میں پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما شہباز شریف پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری پاکستان جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور ایم کیو ایم کے اراکین سمیت حکومتی اتحادیوں نے بھی شرکت کی اور صحافیوں کو اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا شاید یہی وجہ تھی کہ سیاسی قیادت یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اگر یہ بل پاس کیا گیا تو حکومت کے لیے حالات انتہائی خراب ہو سکتے ہیں دوسری طرف صحافیوں کے اتحاد نے بھی یہ واضح کردیا کہ حکومت کے خلاف یہ تحریک مزید زور پکڑتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑی بات یہ بھی سامنے آئی کہ حکومت نے صحافیوں کی اس تحریک کو کمزور کرنے کے لیے ان میں دھڑے بندی کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اس دوران اس نے کئی گروپ بنا کر صحافیوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی جو بری طرح ناکام ہوئی اور اس دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ حکومت نے اتحادی صحافی تنظیموں کے خلاف تھے میر یٹ جیسے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں پریس کا نفر نس کرنے کا موقع دیا اور اس پریس کانفرنس کو پاکستان ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر بھی کیا گیا جب کہ دھرنے میں شریک ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں نے اس بات کو نوٹ کیا کہ حکومت کی طرف سے بنا ئے جانے والے دھڑے کی حمایت میں کوئی سیاسی قیادت یا سیاسی سماجی شخصیات نے شرکت نہیں کی بلکہ ان کی تعداد گنتی کے چند ہندسوں تک محدود رہی جس کی وجہ سے حکومت پر دباؤ بڑھا حکومت کی طرف سے پہلے یہ کہا گیا کہ ایسا کوئی مسودہ ہے ہی نہیں اور بعد ازاں اس سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا گیا دھرنے کے روز صدر مملکت کے خطاب کے دوران حکومت نے صحافیوں کے مجوزہ احتجاج کی وجہ سے پارلیمنٹ کی تاریخ میں پہلی بار پریس گیلری کو تالا لگایا جو اس حکومت کی میڈیا کی آزادی کے بارے میں واضح اشارہ تھا ماضی میں عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ کرپٹ حکومت ہوتی ہے جو میڈیا پر پابندیاں لگا دی ہے یا لگانے کی کوشش کرتی ہے ہماری حکومت میں میڈیا مکمل طور پر آزاد ہو گا لیکن صورتحال اس کے برعکس دیکھی گئی پاکستان تحریک انصاف کے تین سال مکمل ہونے پر صدر مملکت نے اپنے خطاب کے دوران جب میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی پریس گیلری کی طرف اشارہ کیا تو وہاں پر ایک بھی صحافی موجود نہیں تھا جس کی وجہ سے حکومت کو نہ صرف مقامی میڈیا بلکہ عالمی میڈیا میں بھی سبکی کا سامنا کرنا پڑا دوسری طرف جیسے ہی صدر مملکت کا خطاب ختم ہوا تو اس دوران صحافی رہنما افضل بٹ نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیادھرنے کے منتظمین میں نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم جنرل سیکرٹری انور رضا اور دیگر قائدین نے بھرپور کردار ادا کیا جنہوں نے نہ صرف پاکستان بھر کے بلکہ علاقائی صحافیوں سے فرداً فرداً رابطہ کر کے انہیں اعتماد میں لیا یہی وجہ ہے کہ ہمیں ڈرنے والے دن نہ صرف پورے پاکستان بلکہ راولپنڈی اور اسلام آباد اور اس کے مضافات ٹیکسلا واہ کینٹ چکوال فتح جنگ اٹک روات کلر سیداں مندرہ کہوٹہ گوجرخان سوہاوہ دینا جہلم مری کے علاقوں کے صحافیوں کی بڑی تعداد دیکھنے کو ملی بلاشبہ حکومت بیک فٹ پر جانے پر مجبور ہوئی لیکن صحافیوں کے لیے یہ ایسا وقت تھا جب انہوں نے اپنی جدوجہد کو مضبوط اور منظم بنانے کے لیے پاکستان بھر سے اس دھرنے میں بھرپور شرکت کرکے حکومت کو یہ پیغام دیا کہ اگر پاکستان ڈویلپمنٹ بل جیسا کوئی متنازعہ میڈیا کنٹرول بل کی کوشش کی گئی تو صحافی برادری اس کا بھرپور دفاع کرے گی اور اسے کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔