پوٹھوھار کے آخری حکمران سلطان مقرب خان کی پانچوں پشت کے ھاں ایک بچہ نومبر 1934 میں پیدا ھوا۔ کہ جس کا نام حضرت علامہ اقبال نے ” مسعوداختر ” تجویز کیا۔اسلام سے والہانہ عشق اور ھندو دشمنی گویا کہ مسعود شہید کے خمیر میں شامل تھی۔ اسی بنا پہ پاک فوج کا حصہ بنے۔
اور 1965 میں بھارت نے بے خبری میں پاکستان پہ حملہ کر دیا۔ اسکیم تو باکمال تھی کہ بے خبری میں پاکستان کے بڑے علاقے پہ قبضہ کر لیں۔ ھندوستان کے پاس ترپ کا پتہ ان کا 1 آرمڈ ڈویڑن تھا
کہ جسے یہ فخر ھند کہتے تھے۔ اور اس ڈویڑن کو ٹاسک دیا گیا کہ چونڈہ کے مقام سے پاکستان میں گھس کر وزیر آباد تک آ کر G.T روڈ پر قبضہ کر کے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جاے۔میجر مسعود شہید جنگ کے آغاز پہ کھیم کرن (لاھور) کے دفاع کے بعد 12 ستمبر کو شہر اقبال کی حفاظت کیلے چونڈہ (سیالکوٹ) پہنچے۔
اور پھر 18 ستمبر کو وہ معرکہ آن پہنچا کہ جس کے متعلق بعد میں آرمی چیف جنرل موسی خان نے کہا کہ ” مسعود اختر کیانی نے طوفانوں کا رخ موڑ دیا اور نئی تاریخ رقم کی ” آج مسعود اختر شہید دشمن کی
16کیولری، 3 کیولری ہڈسن ھارس اور پونا ھارس کے،170 ٹینکوں کی یلغار کو روکنے کیلے اپنے ” C ” اسکوارڈن کے 10 ٹینکوں کے ساتھ کھڑا تھا۔
اور فخر ھند کو یہ پورا یقین تھا کہ اب انہیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔اور 18 ستمبر کو مسعود شہید کا سامنہ فخر ھند سے ” بدیانہ ” کے مقام پہ ھوا۔پھر ایک انہونی ھو گی۔ مسعود شہید نے دفاع کی بجاے دشمن پہ حملہ کر دیا۔ وہ ترتیب اور پینترے بدلتا اور دشمن کو نشانہ بناتا
اور اپنے جلتے ھوے ٹینکوں کے ساتھ للکارتا کہ ” ایڈوانس جاری رکھو ” یہ طریقہ جنگ ایک دل گردے والا کمانڈر اور اقبال کا شاھین ھی لڑ سکتا تھا۔ دشمن بوکھلا گیا۔17 پونا ھارس کا کمانڈر کرنل تارہ پور چیخ چیخ کر اکھڑی ھوئی خوفزدہ آواز میں واہرلیس پہ اپنے ھیڈکواٹر کو کہہ رھا تھا ” ھم نہیں لڑ سکتے۔ ان کے ٹینک جل رھے ھیں۔ لیکن یہ پھر بھی ایڈوانس کر رھے ھیں ” بھارتی آرمی چیف جنرل چوھدری کی آواز واہرلیس پہ ابھری کہ جو کرنل تارہ
پور کو گالیاں دے رھا تھا اور ساتھ میں لالچ بھی دے رھا تھا
کہ اور کہہ رھا تھا کہ چونڈہ۔ پسرور روڈ پہ پہنچ جاو۔ وھاں تمہیں مہاویر چکر (بھارت کا سب سے بڑا فوجی اعزاز) تمہیں ملے گا۔ یہ گفتگو مسعود شہید نے بھی سن لی اور اپنا ایڈوانس اور فاہیر اور تیز کر دیا۔ آج تو یوں محسوس ھوتا تھا کہ مسعود شہید میں اپنے بابا سلطان مقرب خان کی روح بیدار ھو گی ھے۔
مسعود شہید کے ھاتھوں کرنل تارہ پورہ سنگھ اور ھڈسن ھارس کا کمانڈر مارا گیا۔ اقبال کے شاھین نے فخر ھند کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملا دیا۔ اور بدیانہ کے راستہ کو ھندوستان کے جلے ھوے ٹینکوں اور انفنٹری کی لاشوں سے بند کر دیا۔بدیانہ کے بعد دشمن کا فخر ھند ” جیسوراں ” میں آ چھپا۔ مسعود شہید کا اپنا ” C ” اسکورڈن تو جنگ لڑ چکا تھا۔ اب 19 لانسرز کے ” B ” اسکورڈرن ” کو مشن ملا کہ وہ جیسوراں کو کلیر کرواہیں۔
مسعود اختر نے کہا کہ یہ کام بھی میرے سپرد کیا جاے۔ کمانڈر اور ساتھیوں نے بہت سمجھایا کہ تم مسلسل لڑ رھے ھو۔ اور تھک چکے ھو۔لیکن وہ اڑ گیا کہ یہ معرکہ بھی میں ھی لڑوں گا کیونکہ اس بزدل فخر ھند کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اس طرح مسعود شہید اپنے ” C ” اسکورڈن کو آرام کیلے چھوڑ کر ” B” اسکورڈرن کے ساتھ پھر سے دشمن کے سامنے آن کھڑا ھوا۔مسعود شہید نے دوبارہ ایک نیے مقام پر دشمن پہ حملہ کر دیا۔ اور تباھی مچا دی۔ لہو گرم تھا، خوب پلٹ جھپٹ کے وار کیے۔ دشمن اپنی اہیرفورس لے آیا۔
دشمن کے ایک جہاز کا گولہ مسعود شہید کے ٹینک میں آ پھٹا۔ گولے کا ایک ٹکڑا گردن گاہل کر گیا اور مسعود شہید چونکہ ٹینک کپولا میں تھا۔ اس لیے باہر آن گرا۔اب اس غیرت مند آفیسر نے دیکھا
کہ ٹینک جل رھا ھے اور اس کے کریو کے 3 ساتھی ابھی تلک اس جلتے ھوے ٹینک میں ھیں۔ اسے کب گوارہ تھا کہ اپنے ساتھیوں کو اس جلتے ھوے ٹینک میں چھوڑ دیتا۔
وہ دوبارہ اٹھا۔ ٹینک پہ چھڑنے بیرل پہ ھاتھ ڈالا۔ آگ کی تپش سے بیرل لال ھو چکی تھی۔ ھاتھ چپک گیا۔ اپنا ھاتھ چڑھایا اور جلتے ٹینک کے اندر چھلانگ لگا دی۔ اور اپنے ساتھیوں کو اٹھا اٹھا کر باحفاظت ٹینک کے باہر پھینکا۔ ساتھی بچ گے لیکن مسعود شہید کا سارا جسم جل گیا۔صرف پاوں سلامت تھے
۔ اسٹریچر لایا گیا۔ مسعود شہید نے کہا اللّٰ کو بس میری اتنی ھی حاضری قبول تھی۔ اسٹریچر پے نہیں بلکہ اپنے پاوں پہ جاوں گا۔ محاز جنگ پہ شہید کے آخری الفاظ تھے ” اللّٰ پاکستان اور 19 لانسرز کا حامی و ناصر ھو! ایڈوانس جاری رکھو۔ ایڈوانس جاری رکھو “