اس وقت مہنگائی اپنے عروج پر ہے جس نے تمام ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے بجلی کے بے تحاشہ بلوں اور پھر روز بروز بڑھتی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے دیہاڑی دار مزدور متاثر ہورہا ہے اور لوگوں کے گھروں میں فاقوں تک کی نوبت آئی ہوئی ہے سفید پوش لوگوں کیلئے اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا مشکل ہوگیا ہے اب فاقوں اور بڑھتی غربت کے سبب راولپنڈی کے مضافاتی علاقوں میں کرائم کی ایک لہر کروٹ لے رہی ہے راولپنڈی شہر،کینٹ اور دیہی علاقے اس وقت کرائم کی نئی لہر کا شکار ہیں جسکی بنیادی وجہ بھوک اور افلاس ہے انتہائی شریف اور سلجھے ہوئے لوگ بھی اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا نہیں دیکھ سکتے اس لیے یہ انتہائی اہم قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس صورتحال میں قصور ہم عام عوام کا بھی ہے جو اپنے گھر کے ساتھ جڑے ہوئے دوسرے فرد کی خبر تک نہیں رکھتے اگر ہم دیکھیں آج کے راولپنڈی کو تو یہ پرانی آبادیوں والا شہر نہیں رہاجس میں شہر کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک رہنے والے ایک دوسرے سے باخبر ہوتے تھے اور ایک دوسرے کا پتہ ہوتا تھا کہ کون کس جگہ رہائش پذیر ہے اس کا تعلق کس گھرانے کس گاوں سے ہے اور یہ کیا کام کرتا ہے اس کو کسی چیزکی ضرورت تو نہیں ہے آج صورتحال بالکل مختلف ہے آج شہری اپنے ہمسائے میں رہنے والوں سے بھی مکمل طور پر ناواقف ہیں جبکہ معاشرتی ترتیب اور مذہبی اعتبار سے بھی ایک بنیادی عنصر یہ ہے کہ لوگ اپنے ہمسائیوں سے پوری طرح واقف اور باخبر ہوں لیکن آج کے حالات میں ہر شہری اپنی چار دیواری تک محدود ہے جس کی وجہ سے وہ شہر کی خرابیوں سے بھی خاصی دلچسپی نہیں رکھتا اس لیے اس کو خبر تک نہیں ہوتی اس کے پڑوس میں کسی کے پاس کھانے کو کچھ ہے کہ نہیں یا کسی کا بچہ آج بھوک تو نہیں سویا
جسکے سبب اب حکومت اور انتظامیہ کی ذمہ داریاں کئی گنا بڑھ گئی ہیں کہ وہ اس مشکل وقت میں سفید پوش لوگوں کی مدد کریں راولپنڈی شہر خاص طور پرکینٹ اور دیہی علاقہ میں ڈکیتی اور چوری کی وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے دن دیہاڑے راہ چلتی خواتین‘ نوجوان لڑکیوں سے اسلحہ کی نوک پر زیورات،موبائلز، نقدی چھیننا معمول بن گیا ہے پے در پے راہزنی اور ڈکیتی کی وارداتوں میں کسی طور پر بھی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے الٹا دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اب ان بڑھتی وارداتوں کی وجہ سے شام کے سائے ڈھلتے ساتھ ہی گھروں اور ویران سڑکوں پر نکلنا مشکل ہوگیا ہے لیکن پولیس اور انتظامیہ اس معاملے پر بالکل خاموش ہے راولپنڈی شہر کے تمام تھانوں کی حدود میں آئے روز چوری ڈکیتی کی درجنوں وارداتیں رونما ہو رہی ہیں مگر لوگ پولیس کو آگاہ نہیں کرتے اسکے علاوہ دیہی علاقوں میں جن میں تھانہ روات،تھانہ چونترہ، تھانہ دھمیال تھانہ چکری شامل ہیں ان میں بھی جرائم کی شرع میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جسکی بنیادی وجہ ملک میں حالیہ غربت کی لہر کیساتھ ساتھ ان تھانوں کی حدود بہت بڑی ہے خاص طور پر تھانہ روات کی جو کئی کلو میٹرز اور کئی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے مگر اتنے بڑے علاقوں میں کوئی بھی بڑی چیک پوسٹ یا پولیس پٹرولنگ کا نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ جرائم پیشہ افراد کیلئے سونے کی چڑیا سمجھا جاتا ہے یہاں پر ڈکیت راستہ روک کر کسی بھی گاڑی کو آسانی سے لوٹ کر فرار ہوجاتے ہیں اس کے علاوہ منشیات فروش بھی اس علاقے کو اپنے لیے اور یہاں کے نوجوانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے محفوظ آماجگاہ سمجھتے ہیں ان وارداتوں میں کمی کے لیے جہاں پر موجودہ صورتحال میں حکومتی سطح پر مہنگائی پر قابو پایا جائے لوگوں کو اس مہنگائی کی چکی سے نکالا جائے روز مرہ کی اشیاء کو سستا کیا جائے تو وہیں پر مناسب گشت کا نظام ہونا چاہیے اس کے علاوہ تھانوں کی تعداد بھی راولپنڈی کی آبادی کے حساب سے بہت کم ہے اس میں بھی اضافہ کیا جانا چاہیے پولیس اور انتظامیہ کو اپنی موجودگی اور رٹ دکھانی ہوگی اس سے شہریوں میں نہ صرف پولیس اور انتظامیہ پر اعتماد بڑھے گا بلکہ وہ اپنے آپ کو زیادہ محفوظ سمجھے گے اور ہر شہری کو چاہیے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ارد گرد موجود ایسے لوگوں کا خیال رکھے جو سفید پوش لوگ ہیں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے مگر انکے گھروں میں فاقوں تک کی نوبت آئی ہوتی ہے