مکہ مکرمہ میں ایک شام

عاشر مہناس‘ نمائندہ پنڈی پوسٹ
آذان عصر ہوٹل کے عقبی دروازے سے نکلا ہی تھا کہ ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی بارش اور نماز میں پہنچے قلیل وقت کے سبب تیز قدموں کے ساتھ جبل عمر کی بلند و بالا عمارتوں کو کراس کر کے کنگ فہد گیٹ سے داخل ہوا اور با جماعت نماز ادا کی دل فریب موسم کے باعث آج نماز کے بعد مسجد حرام کے چھت کا رخ کیا چھت سے اللہ کے گھر کا خوبصورت منظر دیکھ کر غیر اختیاری طور پر زبا ن سے سبحان اللہ نکلا دل کیا اس منظر کو قید کر لوں مگر موبائل سے ویڈیو بنانا مناسب نہ سمجھا تو قلم اُٹھایا میرے حافظے میں ایسے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ جو اللہ کے گھر پر برسنے والی رحمتوں اور رحمت کے پرنالے سے چھم چھم گرنے والے موتیوں کی شان بیان کر سکیں ۔ عوام کی دھکم پیل کے باعث پرنالے کے دروازے بند کر دیے گئے تھے۔ ہر ملک و ثقافت سے تعلق رکھنے والے مسلمان گڑ گڑا کے اللہ کے حضور غلاف کعبہ کو پکڑ کر اپنے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آج اللہ اور بندے کے درمیان کے تمام پردے اُٹھ چکے تھے۔ آج ہر کوئی اپنے آپ کو مجرم مان کر اپنے گناہوں کو پیش کر کے اللہ سے بخشش اور مغفرت طلب کر رہا تھا۔ وہ مرد جو کبھی کسی کے سامنے نہیں روتا اور سخت دل تصور ہوتا ہے۔ آج وہ دُنیا سے بے خبر ہو کر بس اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ اللہ راضی ہو جائے۔
آج ہر عورت اپنے بچوں سے وعیش و عشرت سے بے خبر ہو کر اللہ سے صلح کر رہی تھی۔ آج بزرگ اپنے تمام دُکھ درد بُھلا کر اپنے گزری ہوئی عمر کے اعمال اور غلطیوں کا ازالا کر رہے تھے۔ ہجر اسود کو چوم چوم کر ہر مسلمان اپنی آخرت سنوارنے کی کوشش کر رہا تھا۔ آج اگر انسان دیکھ سکتا توا للہ کے فرشتوں کو عرش سے اُترتے دیکھتا اور اپنے بندوں کو معافی کی نوید سناتے‘رزق بانٹتے اور رحمتیں بکھیرتے دیکھتا آج سب کو یہ اُمید ہے کہ اُن کے سمندر کے قطروں جتنے گناہ بھی توبہ کے دھارلے میں بہہ کر نور ہو جائیں گے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آج اللہ کے فرشتے انسان کو مخاطب کر کہ کہہ رہے ہیں کہ ہے کوئی جو اپنی زندگی اللہ کے بتائے ہوئے طریقے پے گزارنے کا سودا کر لے‘ ہے کوئی جو نماز نا چھوڑنے کا ‘سود نا کھانے کا‘جھوٹ نا بولنے کا‘بے ایمانی نہ کرنے کر کسی کا دل
نہ دُکھانے کا سودا کر لے اور بدلے میں رب کائنات اُسے دُنیا و آخرت میں کامیابی اور کامرانی عطا کرے ۔ یہاںآکر اس بات کا پچھاوا ہو رہا تھا کہ اللہ تو شہ رگ کے پاس تھا لیکن ہم سے یہ فاصلہ طے نہ ہوا اس منظر کے شمالی حصہ میں راستہ صفا کی جانب جاتا ہے جہاں ہر مسلمان سعی کر کے حضرت حاجرہؓ کے عمل کو زندہ کر رہے تھے۔ اس سے بڑھ کر اللہ کی محبت کی مثا ل کیا ہو سکتی ہے کہ اللہ نے حضرت حاجرہؓ کو صفا و مروہ کے درمیان دوڑ کو قیامت تک کے لیے عبادت کا حصہ بنا دیا یہاں پر مخلوق کی رب سے محبت کی بھی اعلیٰ مثال ملتی ہے۔ میں نے یہاں محبت کو ننگے پاؤں ‘آنکھوں سے آنسو بہاتے زبان سے استغفار کرتے صفا سے مروہ کی جانب دوڑتے دیکھا اس منظر کو دیکھنے کے بعد آب زم زم پیا ہی تھا کہ سپیکر نے منادی سنائی ’’اصلاۃ علل میت‘‘ یہ وہ صدا تھی جو ہر نماز کے بعد مسجد احرام میں سنائی دیتی تھی۔ جو کہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اے غافل انسان ‘دُنیا کی رونقوں سے متاثر ہونے والے اے رب کے احکمات کو فراموش کرنے والے ’’موت‘‘ اس رحمتوں اور برکتوں والی جگہ بھی برحق ہے یہ اعلان تمام حیات لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ انسان دیکھ اللہ پاک نے تجھے اپنے گھر بُلا کر ایک موقع دیا ہے۔ اللہ کو راضی کر لے اس سے پہلے کہ زندگی کی سانسیں ساتھ چھوڑ جائیں اور یہی اعلان تیرے لیے کیا جائے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے گھر کی حاضری با بار عطا فرمائے۔ (آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں