273

موٹروے کے چونترہ کے علاقہ میں اثرات

اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہرائیں ترقی کا زینہ ہوتی ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر کوئی اچھا کام کرتے وقت اس میں ذاتی مفاد حاصل کرنے کیلئے تھوڑی سے دل میں میل آ جائے تو نتائج غلط ہو جاتے ہیں لاہور راولپنڈی موٹر وے دونوں شہروں کے درمیان مسافت کو جلد طے کرنے کیلئے بہت ضروری تھی یہ منصوبہ واقعی ایک گیم چینجر ہو سکتا تھا اگر اس کے راستے میں زیادہ سے زیادہ شہر مستفیدہو جاتے لیکن بد قسمتی سے منصوبے الائنمنٹ اس طرح کی گئی

جس سے بجائے اس کے کہ ملک صدیوں تک فائدہ اٹھاتا یہ مد نظر رکھاگیا کہ میاں نواز شریف کے حلقہ احباب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو کتنا فائدہ پہنچ سکتا ہے چوہدری نثار علی خان اس وقت میاں نواز شریف کے قریبی لوگوں میں سے تھے انھوں نے بجائے اس کے کہ اپنے علاقے کے اکلوتے شہر چک بیلی خان کے قریب سے اس کا گذر کرتے انھوں نے اپنے آبائی گاؤں چکری کا انتخاب کیا جس کے اطراف میں ہزاروں کنال شاملاتی زمینیں آتی تھیں

جن پر کوئی بھی زور آور قبضہ کر لے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا چوہدری نثار علی خان اپنے علاقے میں کسی بھی جگہ سے روڈ گذارنے سے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کو آگاہ کر دیتے تھے کہ وہ ان علاقوں میں زمینیں خرید لیں کیونکہ روڈ گذرنے کے بعد زمینیں قیمتی ہو جائیں گی اس پر عمل پیرا ہو کران کے معاون خصوصی شیخ اسلم سمیت کئی لوگ معمولی آدمی سے بہت زیادہ امیر حیثیت اختیار کر گئے یہی لوگ چوہدری نثار علی خان کے اخراجات بھی براداشت کرتے تھے

چکری انٹر چینج بننے کے بعد علاقے میں ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہواعلاقے کے کئی بے روزگار ذہین نوجوانوں نے حالات کو غنیمت جان کر چوہدری نثار علی خان کے معاونین کا پلو پکڑا اور پراپرٹی ڈیلنگ کے نام پر ہزاروں کنال شاملاتیں قبضے میں لیں اور ککھ پتی سے لکھ پتی اور دیکھتے ہی دیکھتے ارب پتی بن گئے جیبوں میں پیسے آنے کے بعد انھوں نے علاقے کے ڈکیتوں کو ویگو ڈالے دئیے اور مظبوط قبضہ گینگ بنانے کیلئے اسلحہ سمیت ہر سامان فراہم کیا

اسی پیسے کے زور پر پیشہ ور صحافی بھی خریدے گئے یہاں تک کہ پولیس اور کچہریوں تک کو دولت کے نیچے گھیر لیا عام آدمی سے بلے بلے کروانے کیلئے انھوں نے غریبوں کو مفت کھانے کھلانا شروع کر دئیے مفت راشن کی تقسیم ا ور خیراتی کنوئیں کھدوا کر نیکوکاروں میں نام بھی لکھوا لئے اور اگر کبھی کسی غریب کے ہاتھ کوئی آنا دوانی جمع ہی ہو جاتا تو وہ ان کے پالتو ڈکیت ہی چھین کر لے جاتے جس کا مقدمہ تھانوں میں درج ہوتا اور یہی لوگ فریقین میں سمجھوتے بھی کروا دیتے ہم آئے روز ان لوگوں کے ڈیروں پر بڑے بڑے راضی ناموں کی وڈیوز اور تصاویر دیکھتے ہیں مفت کی دولت عیاشوں کے ہاتھ آنے سے اب عام آدمی کی خواتین کی عزتیں بھی محفوظ نہیں

جن میں غریب اور متوسط لوگ ان کی حرکتوں کے باعث اپنی بے مہار بیٹیوں کے سامنے بھی سرنڈر کر دیتے ہیں یہ آگ صرف عام آدمی کو نہیں جلا رہی بلکہ یہ اب ان کے اپنے گھروں تک بھی پہنچ چکی ہے انھی لوگوں کے ہاتھوں چوہدری نثار علی خان کی سیاست بھی بیچ سواں غرق ہو گئی ہے دو دفعہ انھوں نے مختلف چالوں کے ذریعے اپنا غلبہ ظاہر کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام ہوئے اب بھی کبھی کبھار یہ خبریں گردش کرنا شروع ہو جاتی ہیں کہ وہ پی ٹی آئی یا کسی اور جماعت میں شامل ہو رہے ہیں لیکن کسی بھی جماعت کے ایسے حالات نہیں جن میں ان کی کوئی جگہ بن سکے البتہ ان کے ہم عصر سیاستدان جب ان کا نام لیتے ہیں تو ان کا نام پھر سے کچھ گنتی میں آ جاتا ہے

لیکن عملی طور پر ان کی سیاست ان کے تیار کردہ لوگوں کے ہاتھوں ختم ہے عوام اور چوہدری نثار علی خان کے بعد اگر اس کا اگلا فیز دیکھا جائے تو اس آگ میں یہ لوگ خود بھی جل رہے ہیں آئے روز ان کے جھگڑے، قتل اور راضی ناموں کی وڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتی ہیں یہاں تک کہ دربار انصاف میں بھی یہ لوگ ایک دوسرے سے دست و گریبان ہوتے ہیں علاقے کے ڈکیت تلنگے ان کی مار دھاڑ کی رکھوالی کیلئے ناکافی ہو چکے ہیں اب انھیں افغان ملیشیا کی بھی ضرورت پڑ گئی ہے

عام زمیندار جو اناج اگا کر اپنے خاندان اور گاؤں کے غیر کاشتکار لوگوں کو بھی پالا کرتا تھا اپنی زمینیں گنوا کر انھی لوگوں کے ہاں اپنے بچے کیلئے قبضہ پر بیٹھنے اور جوان بچی کیلئے سیکرٹری کی نوکری ڈھونڈ رہا ہوتا ہے حالانکہ زمینداری کے زمانے میں وہی کسان اپنی اس جوان بچی کو فصل کاٹنے لئے نہیں لے کے جاتا تھا کہ کہیں اس کی بے پردگی نہ ہو جائے آج وہ مجبور ہے کہ اس کی بیٹی کا حسن دیکھ کر لوگ پلاٹ خریدنے آئیں گے یہ وہ حالات ہیں جو صرف چکری انٹر چینج کے مضافات میں نظر آ رہے ہیں

اس کی بجائے اگر یہ موٹر وے چک بیلی خان شہر کو چھو کر گذرتی تو لوگوں کی کاروباری سرگرمیاں فروغ پاتیں اور پہلے سے موجود کاروبار کے باعث منفی رحجانات کے امکانات بہت کم تھے کیونکہ یہاں اس قدر بڑی مفت کی شاملاتیں بھی نہیں تھیں جو جھگڑوں کا باعث بنتیں اگر چکری انٹر چینج سے ہٹ کر کلر کہار انٹر چینج کو دیکھیں تو وہاں کے حالا ت بھی سامنے ہی ہیں جی ٹی روڈ کے راستے راولپنڈی سے لاہور کا فاصلہ 280کلومیٹر ہے ایم ون میں یہ فاصلہ333کلومیٹر کر دیا گیا ہے

جس سے وقت کی بچت ہو نہ ہو ایندھن کا تصرف لازمی طور پر زیادہ ہوتا ہے جس وقت اس کام کا آغاز ہوا تھا وقت چوہدری نثار علی خان کا معاون خصوصی شیخ اسلم چوہدری نثار علی خان کے ایک موجودہ سیاسی مخالف اور ان کے دور اقتدار کے حامی پراپرٹی ٹائیکون کا شراکت دار تھا شیخ اسلم کا بیٹا بھی اس کے پراجیکٹ میں شامل تھا شیخ اسلم باقاعدہ ان سوسائیٹوں میں حصہ دار ہوتا تھا

اس طرح ایک لمبی فہرست ہے جو اس وقت مالی فائدے اٹھایا کرتی تھی قصہ جنتا بھی لکھا جائے شاید ختم ہونے کا نام لے لیکن مختصر بات یہ کہ ملکی سیاست میں ایمانداری کا سرٹیفکیٹ پانے والے ایک سیاستدان کے ایک منصوبے کا ذکر کیا ہے جس کے اثرات سے اس کا علاقہ ترقی کی بجائے فسادات اور جرائم کی شکل میں بھگت رہا ہے بلکہ وہ خود بھی اس کی سزا پا رہا ہے اب آخری سٹیج میں فائدہ اٹھانے والے بھی ایک دوسرے کو مار رہے ہیں علاقے کا بنا بنایا سسٹم تباہ ہو گیا ہے اور یہ صرف ایک زیرک ہونے کی خوش فہمی کے شکار سیاست دان کی اس غلط الانمنٹ کی وجہ سے ہوا ہے باقی کا حال کیا ہو گا قوم خود اندازہ کر لے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں