تحریر: عبدالجبار چوہدری
موجودہ حکومت نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ کیا ایسی کارکردگی دکھانے میں کامیاب رہی جس کے بل بوتے پر آئندہ الیکشن میں کامیابی کا
دعویٰ کر سکے یقینََااس کا جواب نفی میں ہو گا ۔موجودہ حکومت نے جب عنانِ اقتدار سنبھالی تو دہشت گردی کے عفریت نے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا تھا۔محترمہ شہید ہو چکی تھیں۔پیپلز پارٹی نے اپنے اوپر گرنے والے اس کوہِ گراں کو پامردی سے قبول کرتے ہوئے سیاست میں مفاہمت کا راستہ منتخب کیا اور ماضی کے بدترین سیاسی حریفوں کو گلے لگانے میں ذرا بھر بھی تا مل کا مظاہرہ نہ کیا اور ان کے ساتھ مل کر ڈکٹیٹر کو گھر کی راہ دکھائی بلکہ حکومت کی تشکیل میں خاطر خواہ حصہ بھی دے ڈالا ۔ متضاد اجزائے ترکیبی نے شروع سے ہی کام دکھانا شروع کر دیا اس حکومت کے پہلے وزیر اعظم نے اسمبلی کے فلور پر جو اعلانات کئے ان میں گندم کی امداد ی قیمت میں اضافہ بھی تھا۔جس سے عوام کو مہنگی رو ٹی ملنے لگی اور بقول حکومت کے کہ ہم نے آٹا کے لئے لگی لائنیں ختم کر ڈالیں اور گندم کی سمگلنگ اس سے رک گئی ہے۔ مگر یہ سفر اتنی تیزی سے طے ہوا کہ دو روپے میں ملنے والی روٹی اس وقت آٹھ روپے میں مل رہی ہے پیپلز پارٹی پہلی حکومت سے لے کر آج کی حکومت تک حقیقی وزیر خزانہ سے محروم رہی اور یہ سفر ڈاکٹر مبشر حسن سے شروع ہوتے ہوئے وی اے جعفری اور حفیظ شیخ پر ختم ہوا گذشتہ دو دہائیوں سے ہماری حکومتوں کو حقیقی وزیر خزانہ جس کا اس مٹی سے لازوال تعلق ہو اور اس کا ایجنڈا اعدادو شمار کی ہیر ا پھیری نہ ہو بلکہ اصلاحات کے ذریعے ڈوبتی معشیت کو کنارے لگانا ہو کی کبھی ضرورت نہ رہی بلکہ آئی ایم ایف سے مذا کرات کے لئے سہولت کار کو اس منصب پر فائز کیا جا رہا
اوربین الاقوامی مالیاتی اداروں کو اپنے لئے مضبوط گارنٹر کی صورت میں سابقہ ملازمین میں سے ہی کبھی شوکت عزیز جیسے بنکاروں کی تعیناتی میں ہی عاقیت محسوس ہوئی۔ معیشت کی حالت کو سنبھالنے کے بجائے اتحادی وزیر خزانہ نے اس سے جان چھڑانے میں وزیر خزانہ براجمان ہیں جی ہاں۔توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے کو ئی بھی تدبیر کام نہ آ سکی رینٹل پاور پلانٹ سے لے کر ڈیموں کی تعمیر اور بجلی کی تیاری کا مینڈیٹ صوبوں کو دینے کے باوجود ہمارا ملک اٹھارہ گھنٹے اندھیروں میں ڈوبا رہا جس سے ہر شعبہ زندگی کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی اور صنعت کو تو اس حد تک نقصان پہنچا کہ صنعتکار ملک ہی چھوڑ گئیاور انہوں نے پڑوسی مسلمان ملک میں انڈسٹری لگالی۔ گیس کے بحران نے تو پہیہ جام پڑتال کا منظر بنا دیا اور گھریلو صارفین نے پختہ گھروں کی چھتوں پر لکڑی جلانے والے چولہے بنا لئے ۔ بات یہاں ختم نہ ہوئی بلکہ اس کی قیمت میں برابر اضافہ کیا جاتا رہا۔
سہولت موجود نہیں مگر دام مہنگے یہ تھا اس ملک کے باسیوں کی پونجی کا نچوڑ نااور ان میں رہی سہی سکت کو ختم کرنے کے لئے پٹرولیم مصنو عات کی قیمت پر ہفتے متعین کی جاتی رہیں اور بلند ترین شرح بھی ا س حکومت کا کارنامہ ہے اور آج پٹرول اور ڈیزل ایک سو روپے سے بھی زیادہ میں فی لیٹرمیں خریدا جا رہا ہے۔صوبائی خود مختاری کا چمپئین بننے کی خا طر وسیع قانون سازی کر کے صوبوں پر بوجھ لاد دیا گیا اور جو اسمبلیاں نان ٹیکینیکل لو گوں سے بھری ہوئی تھیں انہیں ایکدم کئی ٹیکنیکل وزارتوں کو چلانا پڑا اس کے نتائج بہت بھیانک بر آمد ہوئے ۔ ملکی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ جعلی دواؤں سے سینکڑوں سوگ مرے بلکہ ڈا کٹرز بھی کئی کئی ماہ تک ہڑ تال پر رہے جب تک یہ وزارت مرکز کے پاس رہی کھبی ایسا واقعہ نہیں ہوا اب مریض رُل رہے ہیں اور مسیحا مل نہیں رہے۔ہسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔وزارت خارجہ نے تو کمال ہی کر دیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنے موقف کو پیش کرنا تو درکنار سوکھے پتے کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں اڑتے ہوئے پانچ سال گزار دئیے اور ان سالوں میں جتنی پسپائی 1971ء میں بھی مقدر بنی ہو ہمارے لوگ ڈرون حملوں میں شہید ہوتے رہے۔ شہری ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ ہماری سر زمین فضا ئی حملوں کے لئے استعمال ہوتی رہی اور فوجی سازو سامان کے بھرے کنٹینر ہماری شاہراہوں کو بر باد کر تے اور کسٹم کلیرنس کے بغیر کی جنگ لڑتے رہے یہ تھی ہماری کارکردگی اور ایبٹ آباد آپریشن اور حسین حقانی ایشو نے تو ہماری سلامتی اور ہمارے تشخص پر مہر ہی ثبت کر دی داخلی محاذ پر تو کامیابی کا مت پو چھیں ہم روز جیتے اور روز مرتے رہے اور پھر بھی جمہوریت نے کامیابی سے پانچ سال مکمل کر لئے ۔ذرا سوچیں کیا کھو یا کیا پایا۔