90

ملک برائے فروخت/ عاطف کیانی

قومیں اس وقت ترقی کرتی ہیں جب اس کے قومی ادارے ترقی کرتے ہیں کیونکہ قومی ادارے کسی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں اور کسی ملک کی ترقی اور خوشحالی کی پہچان ہوتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے پاکستان کی موجودہ حکومت آہستہ آہستہ کر کے تمام قومی اداروں کو بیچنا چاہتی ہے ۔قومی ادارے جن کی دیکھ بھال اور کارکردگی بہتر کرنا اور جانچ پڑتال کرنا ‘ جائزہ لینا ‘ خامیوں کو درست کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے مگر حکومت اہم ترین قومی اداروں کو پرائیوٹ کرنے کے درپے ہے حتیٰ کہ اب تعلیم کو بھی بیچا جا رہا ہے پی آئی اے ‘ ایجوکیشن جیسے شعبے بیچنے سے حکومت نہ جانے کون سی بہتری لانا چاہتی ہے ۔اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بجائے ان ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے نت نئے بہانے بنائے جارہے ہیں مگر اس طرح ایک تو ملازمین کے ساتھ ناانصافی ہوگی اور دوسرا بہتری کے بجائے مزید بیڑہ غرق کرنے کے مترادف ہوگا ۔ اگر حکومت تمام ادارے ٹھیکے پر دینا چاہتی ہے تو پھر اسمبلی ممبران کا کیا کام ہے جو بھاری تنخواہیں لیتے ہیں اور جن کی سیکیورٹی پر بھی کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ عوام کو ملازمتیں پہلے ہی نہیں ملتی اور غربت کی چکی میں پسی جارہی ہے یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر قومی اداروں کو نیلام کیا جاتا ہے تو ظاہری بات ہے اس میں بیرون ممالک کی مختلف کمپنیاں بھی خریدتی ہیں ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بھی سرمایہ کاری کی آڑ میں ہی برصغیر پر قبضہ کیا تھ ۔ نقائص کو درست کرنے کے بجائے ادارے ٹھیکے پر دے دینے سے حکومت تو اپنی ذمہ داریوں سے چھٹکارا حاصل کر لے گی پر اس کا نتیجہ الٹا بھی نکل سکتا ہے ۔ پی آئی اے کے خسارے کی بات کی جاتی ہے عرصہ سے اس میں موجود خامیوں درست نہیں کیا گیا۔ پھر ساتھ کہا جاتا ہے حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے ۔ اگر میٹرو بس منصوبوں پر اربوں روپے لگائے جا سکتے ہیں تو قومی اداروں کی بہتری پر کیوں نہیں لگائے جا سکتے ۔ ملک میں سے دہشت گردی ختم کرنے ‘ امن و امان کی صورتحال بہتر کرنے کا کام فوج کر رہی ہے تو سول حکومت اگر ایک ایک کر کے تمام ادروں کو ٹھیکے پر دے دیتی ہے تو حکومت کے پاس کیا کام رہ جاتا ہے ؟ عوام کو مکمل حقوق ‘ عدل و انصاف پہلے ہی نہیں مل رہا اب اگر قومی اداروں کو بھی بیچ دیں گے تو اقتدار سے چمٹے ہوئے لوگوں کو خو د ہی سوچنا چاہیے کہ وہ کیا کریں گے ؟ مگر عوم اس بات سے آگاہ ہیں کہ وہ پانچ سالہ اقتدار کے مزے لے کر بیرون ملک چلے جائیں گے پیچھے عوام جانے اور ان کا کام ۔ تعلیم و صحت جیسی بنیادی چیزیں جو حکومت کی اہم ترین ذمہ داری ہوتی ہے وہ بھی پوری نہیں کی جار ہی اب محکمہ تعلیم کو بھی پرائیویٹ کیا جا رہا ہے اگراسی طرح ایک ایک کر کے تمام ادارے بیچنے ہی ہیں تو حکومت جو اور کوئی کام نہیں کرسکتی عالمی سطح پر’’ ملک برائے فروخت ‘‘ کا بورڈ لگا دے ۔ اس تلخ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے اس شعر پر اختتام کرتے ہیں ۔
یہ حال ہے کہ سو سال غلامی میں بسر کی
مگر ہوش ہمیں اب بھی مکمل نہیں آیا{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں