189

مفت کی دعوت

ویسے ہمارے معاشرے میں ایک بات سننے کو عام ملتی ہے کہ ایک انسان کے لیے زندگی میں تین کام بہت بھاری پڑتے ہیں جن میں شادی مکان اور فوتگی۔ ان تینوں کاموں کے لیے ایک بڑے بجٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن آج کل مہنگائی کا دور دورا ہے ہر ایک کی زبان پر مہنگائی کا چرچا ہے اس لیے زیادہ تر لوگ شادیوں کی تقریبات کو مختصر کرتے جارہے ہیں بلکہ ولیمہ کی سنت کو بھی پشت پردہ ڈال رہے ہیں جس کی بڑی وجہ مہنگائی بتائی جارہی ہے۔اس کے بعد مکان بھی ایک ضرورت ہے لیکن اس کو بھی کافی لوگ مختصر یا پرانے مکان میں ہی رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں مطلب حالات کا جائزہ لے رہے ہیں جس کی بڑی وجہ بھی مٹیریل مہنگا اور اور حال مہنگائی ہے۔اب تیسرا بڑا بجٹ والا کام فوتگی کے تمام لوازمات پورے کرنا ہے جو بتا کر نہیں آتی بلکہ گھر والوں کے لیے ایک آزمائش ہوتی ہے۔جس میں صبر و تحمل کی ضرورت ہوتی ہے

۔اب یہاں پر بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ ڈھنڈی مارنے کی پوری کوشش کرتا ہے اور گھر والوں سے میت کے وہ تمام لوازمات پورے کرواتا ہے جس کی شریعت میں گنجائش ہے یا کہ نہیں یہ زیر بحث نہیں ہے بلکہ جس بے چارے پے بوجھ ڈالا جا رہا ہے اس میں رسومات پوری کرنےمیں کتنی سکت ہے۔ جو پوری کروائی جارہی ہوتی ہیں۔ایک آزمائش کی وجہ سےگھر والے پہلے ہی ہوش وحواس کھو چکے ہوتے ہیں اوپر سے فوتگی کے دن لاتعداد انگنت لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔شادی پر تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ کتنے لوگوں نے شرکت کرنی ہے۔ لیکن یہاں تعداد کا کوئی حساب کتاب نہیں ہے پر لوگوں کے لیے روٹی پوری کرنی ہے۔پھر اس کے بعد “مفت دعوت اڑانے” کا ایک لمںبا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ایصالِ ثواب کے نام پر ہر جمعرات کو برادری کی دعوت کرنا اور پھر برادری کا بروقت اور برابر وقت پر شرکت کرنا اور غیر حاضری کو تو یہ لوگ ظلم عظیم سمجھتے ہیں۔پھر اس طرح تیجہ دسواں چالیسواں اور برسی وغیرہ تک ہمارا بے رحم معاشرہ اس کو چلاتا ہے۔پھر وہاں پر جا کر طعام وپکوان میں نقائص نکالنا فلاں کو فلاں کے ساتھ موازنہ کرنا یہ لوگوں کا ایک بہترین مشغلہ ہے۔ ان لوگوں کو اس کا کوئی احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ بےچارہ کس طرح اخراجات پورے کرے گا۔یہاں پر تو رشتہ دار خواتین جلتی پر تیل کا کام بھی کرتی ہیں

جس کی وجہ سےاکثر لوگوں کو ادھار لیتے بھی دیکھا گیا ہے کہ برادری میں ہمارا کچھ بھرم رہے۔لیکن برادری کے لوگ اس مہنگائی کے دور میں بھی مفت دعوت اڑانے بڑے شوق سے چلے آتے ہیں۔اگر کسی پردیسی بھائی کے گھر فوتگی ہو جائے۔اور اس کو اطلاع دی جائے کہ آپ کے والدین میں سے کوئی وفات پاگئے ہیں ان کے لیے تو یہ خبر قیامت سے کم نہیں ہوتی۔پھر ان بھائیوں کا دوڑ لگانا اور مہنگے سے مہنگا ٹکٹ حاصل کرکے پہلی فلائٹ میں اپنے گھر واپس آنا۔دو لاکھ کا ٹکٹ چھ سات لاکھ کا حاصل کرکے ایمرجنسی میں آنا اور یہاں پر موجود رشتہ داروں کا ان کی طرف ترسی ہوئی نظروں سے دیکھنا اور پھر باقی لوازمات پورے کروانے کے لیے مالدار ہونے کا جوش دلوانا کہ فلاں پردیسی بھائی ہاں فوتگی ہوئی تھی اس نے چوتھے ختم شریف پر یہ یہ کھانے

اور پکوان دیے تھے آپ ان سے کم تھوڑی ہیں۔ان بے چاروں کو کیا پتہ کہ یہ پردیس سے کس حال میں یہاں پہنچا ہے ۔اپنی جمع پونجی لگا کر مہنگا ترین ٹکٹ حاصل کرکے پھر اپنے اخراجات کے لیے بجٹ بنایا ہوگا لیکن یہاں تو لوگوں کی فرمائشیں ہی شروع ہوجاتی ہیں۔
آخر میں یہ بات کہنا چاہو گا خدارا فوتگی یہاں کے بھائیوں کی ہو یا پردیسی بھائیوں کی یہ زبردستی والی دعوت اڑانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔معاشرے میں سے اس کا سد باب ہونا چاہیے ایصالِ ثواب کے لیے اور بہت سے مسنون طریقے موجود ہیں۔ جن میں کسی ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنا مدرسہ یا سکول میں پانی کا کنواں کھدوانا یتیم اور مساکین بچیوں کی شادی کا بندوست کروانا پھر صرف غربا اور مساکین کے لیے کھانے کی دعوت کرنا اس طرح کے کام ایصالِ ثواب کے لیے ہوسکتے ہیں۔اور پھر یہ ان کے گھر والوں پر چھوڑ دینا چاہیے کہ وہ ایصالِ ثواب کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں۔
نوٹ! اگر دعوت کے مزے لینے ہی ہیں تو لوگوں کو ولیمہ کرنے کی ترغیب دی جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں