کسی ملک میں جن شعبہ پر سب سے زیادہ توجہ دیناضروری ہے وہ محکمہ تعلیم ہے اگر کسی ملک کے شعبہ تعلیم کی سمت درست ہے تو سمجھ لیں کہ وہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزان ہے چو نکہ تعلیمی ادارے ملک کو ہر شعبہ کے لئے کارکن فراہم کرتے ہیں جو ملکی مشینری کو چلاتے ہیں اگر یہ کارکن اپنے کام کے ماہر اور اپنے اپنے شعبہ میں بہترین کا رکردگی دکھانے والے ہوں گے تو ملک مضبوط اورخوش حال ہو گا یہ دیانت دار‘محب وطن محنتی اور ایمان دار کارکن تعلیمی ادارے فراہم کرتے ہیں یہ کارکنان قوم ملک کو اسی صورت میں مل سکتے ہیں کہ معیار تعلیم بلندہو۔دیکھنایہ ہے کہ معیار تعلیم ہے کیا؟ کیا لکھنے اور پڑھنے میں مہارت حاصل کرلینا اور بہت سی معلومات اکٹھی کرلینا اور امتحانات میں اعلیٰ نمبرات حاصل کرلینے کا نام معیار تعلیم ہے
ہمارے نزدیک یہ ہر گز معیار تعلیم نہیں ہے بلکہ معیار تعلیم آسان الفاظ میں قوم کی فکر ونظر میں یکسانیت پیدا کرنا اتفاق واتحاد پیدا کرنا اعلیٰ اخلاق و کردار کے حاصل افرادتیارکرنا تعلیم کے ساتھ ساتھ قوم کی تربیت کو پیش نظر رکھنا افراد کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اُجا گر کر کے اُن کے سیرت وکردار کی تشکیل کرکے محبت اُلفت وحدت کی لڑی میں پرونے کا نام معیار تعلیم ہے۔
گزشتہ تین سال میں ان اُوصاف حمیدہ کے لوگ اگر میدان میں ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ معیار تعلیم ہے اور اگر نہیں ہے تو سوالیہ نشان ہے 2000ء کے بعد تعلیمی ادارے نمبرات حاصل کرنے اور سو فیصد نتیجہ دیکھا نے کے لیے میدان میں کو دبڑے اور ایک دوسرے پر بازی لینے کے لئے ہر جائز وناجائز راستہ اپنا پاگیا اچھی اور معیاری تعلیم خواہ سر کاری ادارے دیں یا پرائیویٹ قابل تعریف و تحسین ہیں آج ہم نے دیکھنا ہے کہ تعلیم روبہ ءِ زوال کیوں ہے اس کی اصل وجہ کیا ہے
طبقاتی نظام تعلیم:ملک میں طبقاتی نظام تعلیم ہے سرکاری اداروں کا نصاب الگ اور پرائیویٹ اداروں کا الگ پھر پرائیویٹ اداروں کے نصاب میں یکسا نیت نہیں یہ سکول اور کالج اپنی من مرضی کا نصاب پڑھا رہا ہے کوئی آکسفورڈ کا نصاب پڑھا رہا ہے اور کوئی کنٹرولنگ اتھارٹی نہیں کہ نئی نسل کو قومی تقاضوں اور ضروریات کے مطابق یکساں نصاب پڑھایا جائے ہر مکتب ایک الگ مکتبہ فکر تیار کر رہا ہے
1:انگریزی ذریعہ تعلیم: قومی زبان کے بجائے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانا ہے جو کہ ایک غیر ملکی زبان ہے جن کو سمجھنا ہمارے طلبا ء کے لئے مشکل ہے جس طرح اپنی زبان میں آسانی سے درس و تد ریس کی جا سکتی ہے اور طلبا ء کو فہم کے ساتھ پڑھایا جا سکتا ہے اس طرح تدریس نہیں ہو رہی بلکہ رٹا سسٹم ہے بعض مضمون کو سمجھے بغیر رٹا سسٹم کے تحت علم حافظہ میں بٹھایا جا تا ہے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ٹیکسٹ بک کے بجائے گائڈ یں اور خلاصے بچوں سے خرید کر وائے جاتے ہیں کیا اساتذہ کیا بچے سب گائڈ بکس اور خلاصوں کا استعمال کرتے ہیں اس طرح لکھنے پڑھنے اور سمجھنے کی مہا رت حاصل کیے بغیر ایک طالب علم بہت اعلیٰ غیر حاضر کر کے یو نیورسٹی جا پہنچا ہے پھر اعلیٰ غیر حاصل کرنے کے لئے طلباء اور اساتذہ مختلف راستے استعمال کرتے ہیں یہاں طلبا ء کی سیرت وکردار کی تعمیر کے بجائے اس کے کردار کو تباہ کر کے رکھ دیا جاتا ہے غیر محسوساتی طوریہ اور اسے بتایا جاتا ہے تم نے عملی زندگی میں کس کس طرح اپنی ہی قوم کے ساتھ دغااور بد با نتی کرنی ہے
2:اساتذہ کی بھرتی میں نا انصافی
سرکاری اداروں میں اساتذہ کی بھرتی کے لئے جہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ اپنے مضمون میں ماہر ٰاُستاد کی ضرورت ہے وہاں اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس شخص کا کردار اور سیرت کیسی ہے نظریاتی اعتبار سے اس کا نقطہ نظر کیا ہے کیا اپنے دین اور وطن سے محبت رکھنے والا ہے کیا متعلم والے اُوصاف اس میں موجود ہیں یہاں صر ف مضمون میں ماہر نہیں بلکہ سیرت و کردار والا آدمی چاہیے اور پھر اُستاد کو معقول معاوضہ دیا جائے جن سے اُس کی ضروریات زندگی آسانی سے پوری ہوں اور وہ ہر طرح کی ذہنی پریشانیوں اورتفکرات سے آزاد ہو کر اپنی پوری توجہ درس و تدریس اورتربیت پرمرکوز کرے محکمہ تعلیم میں ایسے لوگوں کو بھرتی کیا جائے جو اُستاد رہناچاہتے ہوں ایسے لوگوں کو محکمہ میں داخل نہ ہوناچاہیے جن کی نظر بیرون ملک دیگرشعبوں کے خواہش مند ہوں
محکمہ تعلیم میں آنے والے سے حکومت معاہدہ کرے اُور اُن پر پابندی ہو کہ وہ محکمہ چھوڑ کر دوسری جانب نہ جا سکیں پرائیویٹ اداروں میں تو یااساتذہ کے ساتھ جو ظلم ہے وہ نا قابل بیان ہے اس دور میں ماسٹر کر کے آنے والی معلمہ یا معلم دس یا بارہ ہزار روپے پر کام کر رہا ہے اور وہ بھی علم کی روشنی پھیلانے کا جن علم سے قومی ترقی یا فتہ ہو گئی اور دُنیا میں مہذب اور متمدن کہلائے گی ایک عام آدمی کی عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ ایک مزدور مستری کم ازکم ماہانہ تیس ہزار سے اُوپر کماتا ہے اور قوم دس بارہ ہزار پر قوم کی تعمیر کرے گا پھر وہ قوم بھی دیسی ہی ہوگی جتنا معلم کو وظیفہ دیا جارہا ہے
سرکاری اداروں میں اساتذہ کی کمی
بہت سے سرکاری ادارہ جات میں کسی بھی وقت اساتذہ کی تعداد پوری نہیں ہوتی جب ایک اُستاد ریٹائر ہو جاتا ہے یا ایک ادارہ سے دوسرے ادارے میں ترقیابی یا تبادلہ ہو تا ہے تو جنہوں بیس سالوں متعلقہ آ سامی خالی رہتی ہے اور غریب لوگوں کے بچے متعلقہ مضمون کی تعلیم سے محروم رہتے ہیں یا پھر کوئی ایسا اُستاد اُس مضمون کی تدریس کرتا ہے جو اس کا ماہر نہیں ہوتا اس طرح بچہ میں ابتدائی جماعتوں میں جو کمی رہ وہ ساری زندگی کی محنت کے باوجود پوری نہیں ہو پاتی۔