راجہ حسن اختر ایڈووکیٹ نے 12اگست 1950 کو درکالی شیرشاہی میں جنم لیا اور ابتدائی تعلیم درکالی شیر شاہی اور کلرسیداں سے ہی حاصل کی۔ اعلی تعلیم کے لیے کراچی چلے گئے اور وہاں ایم اے اکنامکس کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وکالت کی تعلیم بھی مکمل کی۔ وکالت کی پریکٹس کراچی اور کہوٹہ راولپنڈی میں کی۔ وکالت کو بطور پیشہ اختیار کر لیا لیکن وہ فطری اعتبار سے روائیتی وکیل نہ تھے۔ وہ معاملہ فہم طبعیت کے مالک بے لوث انسان تھے۔ معاملہ فہمی کا یہ عالم تھا کہ انکے پاس اکثر لوگ جب کیس لے کر آتے تو وہ فریقین کو کورٹ کچہری جانے کے بجائے بیٹھ کر مسلہ حل کرنے کی رائے دیتے تھے۔ میری ان سے شناسائی1987میں ہوئی جب میں نے درکالی شیر شاہی سکول سے اپنی سروس کا آغاز کیا۔ جب بھی ملتے پرجوش اور مسکراہٹوں کے حسین امتزاج کے ساتھ۔ شناسائی کا یہ رشتہ قربتوں میں تب بدلہ جب وہ غریب اور ذہین طلبا کی حوصلہ افزائی اور تعلیمی اداروں کی بہتری کی مثبت سوچ کے ساتھ محکمہ تعلیم کی طرف مائل ہوئے۔ اسی مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے2011میں نیشنل ایجوکیشنل کمیٹی کلرسیداں کی بنیاد رکھی اور تحصیل سطح پر قابل طلبا کی حوصلہ افزائی کے لیے سالانہ پروگرام کا آغاز کیا۔ اس کاوش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہم نے راجہ حسن اختر صاحب کی سربراہی میں بطور ایک ٹیم بن کر کام کا آغاز کیا اور ہر آنے والے سال میں مزید بہتری اور مقصد میں کامیابی سمیٹی۔ مقصد صرف ایک تھا کہ قابل طلبا کی حوصلہ افزائی کر کے انکے روشن مستقبل کے لیے راہ ہموار کرنا۔ یہ جذبہ، حوصلہ اور ہمت لے جانے والے بہت سے طلبا حوصلہ افزائی کے اس مقصد کے باعث آج بھی اپنی تعلیمی کامیابیوں کا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں جو اس مقصد کی اصل کامیابی تھی۔ راجہ حسن اختر (مرحوم) تعلیمی ترقی کے ہمیشہ خواہاں رہے، اعلی کارکردگی والے طلبہ و طالبات کے لیے انعامات اور حوصلہ افزائی ان کے ایک بڑے کارنامے کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ سیدھی اور حق بات ہمیشہ ڈنکے کی چوٹ پر کرتے تھے، انکا کردار ہمیشہ ایک چھتری کی مانند تھا جس نے سب کو سمیٹا ہوا تھا۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں راجہ حسن اختر نے اپنی زندگی کے طرزِ عمل کو کافی تبدیل کیا۔ حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد سفید داڑھی اپنے چہرے پر سجا لی، سیاست میں وہ لگاؤ نہ رہا، اپنے خاندان کو وقت دینے لگے۔ گویا وہ بدل گئے اور اپنے اللہ سے لو لگا لی۔ انکے جانے کے بعد جیسے ہم اس چھتری کی شفقتوں کے سائے سے محروم ہو گئے۔ بہت ساری محبتوں، شفقتوں، خلوص، پیار اور ان گنت حسین یادوں کا باب تمام ہوا لیکن راجہ صاحب ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے۔ میری دعا ہے اللہ پاک انکو غریق رحمت کرے اور درجات میں بلندی عطا فرمائے، آمین
اے فرشتہ اجل ۔۔ کیا خوب تھی تیری پسند
پھول بھی وہ چنا جو سارے گلشن کو ویران کر گیا
195