جاوید چشتی،شمشیر مسیح سے میری شناسائی کو قریباً15سے18سال بیت چکے۔ وہ جب پہلی بار ملا تھا ، اس نے کلرسیداں میں مسیح عبادت گاہ اور قبرستان کی بات کی تھی اور چند دن قبل جب آخری بار ملا تب بھی اس کے مطالبات میں کوئی کمی یااضافہ نہیں ہواتھا۔ وہ اقلیتی نشست پر ممبربلدیہ منتخب ہوا تب بھی ٹی ایم اے کے اجلاس میں اپنے مذہب کوماننے والوں کے لئے چرچ اور قبرستان کے لئے قرارداد پیش کی جسے ممبربلدیہ شیخ حسن ریاض کی تائیدحاصل تھی۔ یہ قرارداد متفقہ طورپر منظور ہوئی تاہم شمشیرمسیح کامطالبہ پوراہونے میں قواعدوضوابط نے پاو¿ں پھیلا دیئے۔اس نے میڈیا کے دوستوں سے بھی اپنے مطالبات کے حق میں لکھنے کے لئے درخواستیں کیں۔ سپریم کورٹ کے انسانی حقوق سیل میں درخواستیں تک دیں لیکن یہ ’غیرقانونی‘ مطالبات پذیرائی نہ پاسکے۔گزشتہ روز شاہ باغ کے مقام پرایک موٹرسائیکل حادثے میں شمشیر مسیح جان کی بازی ہار گیا۔ اس کے لواحقین کواس کی موت کے ساتھ ساتھ اسے دفن کرنے کی فکر نے آن گھیرا۔ سابق کونسلر عبدالجبار صدیقی، سماجی وکاروباری شخصیت چودھری جبار نورکے ہمراہ کلریوتھ کونسل کے جوانوں راشد سیٹھی، انتصار قریشی، ندیم الفت بلو، شیخ سلیمان شمسی، ٹھیکیدار محمدلطیف ، فیصل خلجی ودیگر نے اپناحصہ ڈالا۔ انتظامیہ سے بات ہوئی۔ انتظامیہ اس نعش کے بوجھ کوسہارنے پر تیار نہیں تھی۔ وہ پہلو تہی کرتی رہی۔ مسلمانوں کے قبرستان میں قبرکشائی شروع ہوئی تو فکر دامن گیر ہوئی کہ علماء فتویٰ نہ دے دیں اور یہ معاملہ مذہبی منافرت کی راہ نہ چل نکلے۔ اصرار ، انکار پر غالب آیا۔ٹی ایم اے کے سابق مسیحی ممبرکوآراضی کمپیوٹرسنٹرکے باہر سابق گورا قبرستان میں دفن کی اجازت کے لئے رات دو بجے تک منتظر رہناپڑا۔ قبرکشائی کی گئی۔ صبح مسیحی دوستوں کاہاتھ بٹانے کے لئے راجہ واجدحسین بھی گاو¿ں پنڈسے موقع پر پہنچے۔ ریفریشمنٹ سعیدسویٹ اینڈ بیکرزکی جانب سے بھیجی گئی۔ اتنی دیر میں اسسٹنٹ کمشنرکلرسیداں کی جانب سے تین ملازم موقع پر پہنچے ، جن میں ایک کاانداز گفتگویہ تھا: ”اوتیراکون مرگیاہے؟“ آواز میں رعب بھی تھااور غروربھی۔ حقارت بھی تھی اور نفرت بھی۔ مرنے والے کے بھائی جاویدمسیح نے روتے ہوئے جواب دیا: ”میرا بھائی مرگیا باو¿جی!“ آنسو رخساروں سے
ہوتے ہوئے مٹی میں بے آبروہوگئے۔ویڈیوبنائی گئی تاکہ موقع پر موجود قبرکشائی کے ’ملزمان ‘کی شناخت کویقینی بنایاجاسکے۔کلرسیداں بار ایسوسی ایشن آگے بڑھی۔ صدربار سیدسبط الحسن نقوی ایڈووکیٹ، جنرل سیکرٹری چودھری مبشرسلیم ایڈووکیٹ اور دیگرمعززوکلاءاپنے مسیحی بھائیوں سے اظہار یک جہتی کے لئے قبرکی جگہ پر پہنچے۔ میڈیا کے دوست چودھری عامرکمبوہ کو اطلاع ہوئی۔ وہ بھی اس کارخیر میں شریک ہوئے۔ (باقی صفحہ3نمبر02)
وکلاءنے اظہار یک جہتی کیا۔ مرنے والوں کے دکھ میں شرکت کی اور مسیحوں کے لئے قبرستان دینے کے مطالبے کو ’ان ڈورس‘ کیا۔ لیگل ایڈوائزر ٹی ایم اے راجہ محمداسرارایڈووکیٹ نے بھی اپناحصہ ڈالا۔ پی ٹی آئی تحصیل کلرسیداں کے صدر راجہ ساجدجاویدموقع پرتشریف لائے۔ اسی اثناءمیں ممبرصوبائی اسمبلی راجہ صغیراحمد بھی موقع پر پہنچے اور مسیحی بھائیوں کودلاسہ دیا۔ ممبرصوبائی اسمبلی نے اس موقع پر میڈیاسے بات چیت میں کہا کہ میں خود کمشنرصاحب سے بات کرکے یہاں مسیحی بھائیوں کے لئے قبرستان کویقینی بناو¿ں گا۔ انھوں نے شمشیرمسیح کی موت پر دکھ کااظہار کیااور مرحوم کے گھرتک جا کر متاثرین کوپرسہ دیا۔ راجہ ساجدجاویدنے گف کے مقام پر ایک کنال زمین مسیح قبرستان کے لئے وقف کرنے کااعلان کیا، سابق ممبربلدیہ اور سابق سٹی ناظم شیخ حسن ریاض نے دکھ بھرے انداز میں کہا کہ یہاں اپنے حق کے لئے مرناپڑتاہے۔ شمشیر مسیح میراساتھی تھا۔ اس نے ٹی ایم اے اجلاس میںقبرستان وعبادت گاہ کے لئے قرارداد پیش کی جس کی تائید میں نے کی تھی لیکن یہ قرارداد فائلوں میں دب کر رہ گئی۔ شمشیر نے اپنے حصے کے ترقیاتی فنڈ زکو ان دومطالبات کے لئے وقف کرنے کااعلان کیا لیکن قواعد، ترقیاتی فنڈز کو یہاں صرف کرنے سے انکاری ہوگئے۔ سابق ممبربلدیہ عابدحسین زاہدی نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ مسیحی بھائیوں کامطالبہ جائز اور برحق ہے اور ہم ان کے اس جائز مطالبے میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سابق کونسلر عبدالجبار صدیقی نے کہاکہ صوبائی گورنمنٹ کی جگہ پر آراضی ریکارڈ سنٹر بن سکتاہے تواس کے باہر سابق ڈسپنسری اور گوراقبرستان کی جگہ کو ان کے قبرستان کے لئے وقف کرنے میں کیا امرمانع ہے؟ مسلم لیگ(ن) کے رہنما چودھری طارق تاج نے بھی یہاں اپنی موجودگی کویقینی بناکر متاثرہ خاندان کوسہار ادیا۔ تدفین ہونے تک گومگوکی کیفیت رہی۔ معلوم ہوا کہ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدارنے فون پر متاثرہ خاندان سے کہا کہ مقامی لوگ معترض ہیں،یہاں مسیح نہیں مسلمان دفن ہیں، اس لئے تدفین روک دی جائے۔ وقت گزرتاگیا ، لوگ شامل ہوتے گئے ، آخر کار شمشیرمسیح کی آخری رسومات ادا کردی گئیں اور اسے یہ کہہ کر دفن ہونے کی اجازت دے دی گئی کہ شمشیرمسیح کے بعد یہاں دفن ہونے کے لئے انتظامیہ کی اجازت ضروری ہوگی اور انتظامیہ اس بارے بھی فیصلہ کرے گی کہ اس نعش کا مستقبل کیا ہوگا؟ شمشیرمسیح اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ کس قدر مخلص تھا کہ اس نے جب تک دم میں دم تھا یہ مطالبہ نوک زبان رکھا اور آخر جب ہرطرف سے مایوسی ہوئی تواس نے مرکر اپنے لئے قبرکی جگہ حاصل کرلی۔ اب اس جگہ کو ’گوراقبرستان‘ کے بجائے’ شمشیرمسیح قبرستان‘ کے نام سے معنون کرنے میں پاکستان تحریک انصاف اور یوتھ کونسل کلرسیداں کے ساتھ ساتھ سیاسی زعماءاپنابھرپورکردار ادا کریں ، کیوں کہ یہ معاملہ مذہب کانہیں بل کہ انسانیت کا ہے۔