مراعات کا فقدان پولیس میں بدعنوانی کی بڑی وجہ؟

پولیس ڈیپارٹمنٹ معاشرے میں قانون کی عملداری عوام کے جان و مال کے تحفظ اور امن و امان کے قیام کی ضامن ہوتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں پولیس کا محکمہ خود شدید مسائل کا شکار ہے اعلیٰ افسران کو تنخواہیں، لاجسٹک کی لامحدود سہولیات حاصل ہیں اگر نہیں بھی تو وہ ماتحت عملے سے وہ کام کروا لیتے ہیں جو انکو اختیارات میں ہی نہیں ہیں لیکن ان میں سب سے نمایاں مسئلہ پولیس اہلکاروں کی کم تنخواہیں اور الاونسز ہیں جو کرپشن، بدانتظامی اور عوامی بداعتمادی کا باعث بن رہے ہیں راقم نے پولیس اختیارات سے تجاوز، رشوت خوری، بد انتظامی کو موضوع تو ڈیپارٹمنٹ سے انفرادی حیثیت میں کالز اور میسجز کے ذریعے فیڈ بیک موصول ہوا کہ آپ پولیس ڈیپارٹمنٹ پر تنقید کرتے ہیں جو کہ حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔

تاہم کبھی ہمارے مسائل پر بھی نظر دوڑائیں سو آج اس پر طالع آزمائی کی کوشش کی ہے پولیس کے محکمہ میں خرابی اور کرپشن کی بنیادی وجہ کیا ہے وہ ہے کم تنخواہوں مراعات پر مشتمل پیکج،پاکستان میں ایک عام سپاہی کی تنخواہ دیگر محکموں کی نسبت نہایت کم ہے اکثر پولیس اہلکاروں کو اپنے خاندان کے بنیادی اخراجات پورے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ ان کی تنخواہیں مہنگائی کی موجودہ شرح سے میل نہیں کھاتیں جہاں انہیں دن رات، گرمی سردی اور خطرات کے باوجود ڈیوٹی انجام دینا ہوتی ہے۔

وہاں نہ مناسب رہائش، نہ ہی مناسب طبی سہولیات اور نہ ہی بچوں کے لیے معیاری تعلیم یہ سب عوامل ان پر مالی دباؤ بڑھاتے ہیں اور اوپر سے محکمے میں کرپشن کی جڑ اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ پورا ماہ بہترین انداز میں ڈیوٹی دینے والوں کی بھی غیر حاضریاں لگا تنخواہیں کاٹ لی جاتی ہیں اس کے بعد سب سے بڑا ایشو علاج معالجے کی سہولیات کا فقدان ہے پولیس اہلکاروں کو علاج معالجے کی وہ سہولیات میسر نہیں جو ان کے پیشے کی نوعیت کا تقاضا کرتی ہیں دورانِ ڈیوٹی کسی پولیس مقابلے میں زخمی ہونے یا کسی بیماری کا شکار ہونے کی صورت میں انہیں اکثر عام سرکاری اسپتالوں میں طویل قطاروں سمیت اس خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کہ اللہ کی امان مخصوص پولیس اسپتالوں کی کمی جدید سہولیات کا فقدان اور دواؤں و ایمبولینس جیسی بنیادی چیزوں کی قلت ایک مستقل مسئلہ ہے۔ اس کے باعث اہلکار نجی اسپتالوں سے علاج کروانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جو ان کی محدود آمدنی پر بوجھ بن جاتا ہے اور اکثر بیشتر ایسے اہلکار بھی سامنے آتے ہیں جو اپنی بیماری پر لاکھوں روپے خرچ کرچکے ہوتے ہیں لیکن محکمہ انہیں سپورٹ کرنے کے بجائے انہیں مزید خوار کررہا ہوتا ہے میرے ایک جاننے والے سب انسپکٹر کو گردے کی بیماری کا سامنا تھا وہ بیماری سے لڑتے لڑتے تقریبا بیس لاکھ سے اوپر لگا چکاہے یہ سارا پیسہ انہوں نے زاتی زمین بیچ کر اپنے اوپر خرچ کیا جبکہ سرکار کی جانب سے انہیں تین لاکھ کی سپورٹ ملی وہ بھی زلالت اور خواری کے بعدمجھ سمیت سب یہ مطالبہ کرتے ہیں ۔

کہ کرپشن کا خاتمہ ہو لیکن کیسیجب ایک اہلکار کو اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے مالی سہارا نہ ملے، تو وہ مجبوراً غیرقانونی ذرائع اختیار کرتا ہے رشوت، سفارش، ناجائز گرفتاری، ایف آئی آر کے اندراج یا اخراج میں تاخیر، حتیٰ کہ جرائم پیشہ عناصر سے ساز باز یہ سب کرپشن کی وہ شکلیں ہیں جو مالی مجبوریوں کے سبب پروان چڑھتی ہیں اور اسکا زمہ دار کون ہے یقینا وہ سینئر افسران ہونگے جو اپنی کمانڈکو مزے سے انجوائے تو کررہے ہیں لیکن انہیں اپنے ماتحتوں کا کوئی خیال نہیں کم تنخواہ، علاج کی عدم سہولیات کی کمی اور بدتر معاشی حالات نہ صرف کرپشن کو فروغ دیتے ہیں بلکہ پولیس اہلکاروں کی نفسیاتی صحت کو بھی متاثر کرتے ہیں ذہنی دباؤ، ڈپریشن، چڑچڑاپن اور غیرپیشہ ورانہ رویے کا براہ راست اثر عوام سے تعلقات پر پڑتا ہے اور ہم کسی ایک نااہل کمانڈر کی وجہ سے پوری فورس کو برا بھلا کر رہے ہوتے ہیں ایک بات تو طے ہے کہ جب عوام پولیس کو کرپٹ، بے حس اور بدتمیز دیکھتے ہیں تو اعتماد کا رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بیشتر شہری پولیس کے پاس جانے سے گریز کرتے ہیں اور نجی تحفظ یا غیر قانونی ذرائع کو ترجیح دیتے ہیں۔ عوام اور پولیس کے درمیان یہ خلیج ملکی امن و امان کے لیے خطرناک ہے ان تمام ایشوز کا بہترین حل یہ ہے کہ پولیس ملازمین بالخصوص سپاہی سے لیکر انسپکٹر تک کی تنخواہوں اور الاونسز میں اضافہ ہو اور سپاہی سے انسپکٹر تک‘ہر درجے کے اہلکار کی تنخواہ مہنگائی کے تناسب سے بڑھائی جائے اہلکاروں کے لیے مناسب رہائش گاہیں فراہم کی جائیں آپ کبھی راولپنڈی پولیس لائن کا ہی دورہ کرلیں تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں بیرک کی کوئی حالت نہیں لیکن واش روم کی حالت اتنی ناگفتہ بہ ہے کہ وہاں جانے کا سوچ کر ہی ابکائی آجاتی ہے۔

ایک اہم نقطہ پولیس ملازمین کے بچوں کے لیے مفت یا سبسڈی شدہ تعلیم و صحت کی سہولت ہونی چاہیے تاکہ وہ بچوں کے بہترین مستقبل کا کم از کم خواب تو دیکھ سکیں اور انہیں اور انکی فیملیز کے لیے جدید سہولتوں سے آراستہ پولیس اسپتال قائم ہونے چاہیے جہاں اہلکاروں اور ان کے خاندان کو مفت اور فوری طبی امداد فراہم ہوسکے محکمہ سے کرپشن کے مکمل خاتمے کے لیے ایک مضبوط اور خودمختار پولیس احتساب یونٹ قائم کیا جانا چاہیے جو کرپٹ اور محکمہ کے ماتھے پر کلنک لگانے والوں اہلکاروں کا ایسا کڑا احتساب کرے پولیس فورس کو نہ صرف جسمانی تربیت بلکہ اخلاقی اقدار، انسانی حقوق اور عوامی تعلقات کے حوالے سے بھی مسلسل تربیت دی جائے میں گارنٹی سے کہ سکتا ہوں کہ اگر پولیس میں نام کی اصلاحات نہیں بلکہ عملی طور پر اقدامات کیے جائیں تو پولیس کا ادارہ ریاست کی ریڑھ ہڈی کی حثیت رکھتا ہے اور اسکی مضبوطی ریاست کی زمہ داری ہے اگرپولیس کا ادارہ ریڑھ کی ہڈی ہے اگر اس ریڑھ کی ہڈی کو کمزورہوگا تو تو پورا نظام عدل امن و امان متزلزل ہو جاتا پولیس اہلکاروں کو باعزت زندگی دینے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تنخواہوں، الاونسز، علاج، رہائش اور تعلیم کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے، تاکہ وہ ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دے سکیں اور کرپشن کا خاتمہ ممکن ہو سکیاگر ریاست کا یہی وطیرہ رہا تو وہ دن دور نہیں جب یہ ادارہ مزید شتر بے مہار ہوجائیگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں