محمود غزنوی کے غلام اور وزیر ایاز کا نام بار بار ذہن کے کسی گوشے سے صدائے باز گشت کی صورت کانوں میں گونجتاہے لہذا سوچا اس وزیر باتدبیر کے بارے میں کچھ لکھا جائے اور قارئین کرام کی نذر کیا جائے مجھے افسوس ہے کہ میں تاریخ ہند کی کتابیں سنبھال کر نہیں رکیں وگرنہ ان کا ذکر یا تذکرہ کرتے وقت حوالہ دینے کے لیے ضرور کر تا۔غالبا 1966ء کی بات ہے آٹھویں کلاس میں ہمارے استاد ہمیں تاریخ ہند پڑھا رہے تھے جب سومنات کے مندر کے بارے ذکر آیا تو انہوں نے کتاب بند کر دی اور زبانی لیکچر دینا شروع کر دیا جو اس طرح تھا ۔بچو ! جب محمود غزنوی نے سومنات پر حملہ کیا اور اسی کی فوج نے سومنات فتح کر لیا تو غزنوی اپنے نہایت ہی دانا غلام اور وزیر ایاز کے ساتھ چند دوسرے معززین کے ہمراہ سومنات کے مندر میں داخل ہو ا محمود غزنوی نے دیکھا کہ سومنات کے مندر کا بت نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر بلکہ خلا میں بغیر کسی سہارے کے معلق کھڑاہے محمود غزنوی خاصا حیران بھی ہوا اور پریشان بھی اس نے ایاز کی طرف سوالیہ نظروں سے نہیں دیکھا اور پوچھا کہ ایاز یہ کیا معاملہ ہے؟ایاز بھی حیران ہو ا کہ یہ لوہے کا بنا ہوا بت بغیر کسی سہارے خلاء میں کیسے موجود ہے ایاز نے چند لمحے غور کرنے کے بعد کہا حضور مندر کی دائیں دیوار گروا دیں محمود نے سپاہیوں کو حکم دیا ور دیوار گروا دی دائیں دیوار گرنا تھی کہ سومنات کا دیوتا کھڑک بائیں دیوار کے ساتھ آلگا اب ایاز کے کہنے پر محمود نے چھت گروا دیا چھت گرتا گیا ساتھ ہی دیوتا بھی دھڑم کر کے نیچے فرش پر گرا ایاز نے عرض کی حضور مندر کی چاروں دیواریں ،چھت اور فرش میں مقناطیس آویزاں کر کے بت کو عین اس جگہ معلق کر دیا گیا ہے جہاں پر چاروں جانب سے اوپر نیچے مقناطیس کی کشش برابر اسے اپنی جانب کھینچتی ہے لہذا یہ اس کشش کی وجہ سے آسمان پر معلق تھامحمود ایاز کی دانائی اور معاملہ فہمی پر بہت خوش ہوا اور یران بھی۔محمود نے ایک ہی لمحے میں تلوار اٹھائی اور چاہتا تھا کہ ایک ہی وار میں اس لوہے کے بت کو پاش پاش کر دے کہ مندر کے پجاری محمود کے پاوں پڑ گئے اور گڑ گڑا کر عر ض کی حضور اس کے بدلے جتنے ہیرے جواہرات کہتے ہیں ہم سے لیں مگر ہمارے دیوتا کو یوں ٹکڑ ے ٹکڑ ے نہ کریں محمود نے ایک نظر تلوار اور ایک نظر اس بت پر ڈالی اور یہ تاریخی الفاظ کہے بت شکن ہوں بت فروش نہیں اسی کے ساتھ زور دار وار کیا اور بت پاش پاش ہو گیااور اس کے اندر پورے ہندوستان کا چھپایا گیا خزانہ جس میں سونا اور ہیرے جواہرات شامل تھے فرش پر آگرے ناقدین کہتے ہیں کہ مندر کے پجاری اس لیے بت کو بچانا چاہتے تھے کہ انہوں نے اس کے پیٹ میں ہیرے جواہرات چھپار کھے تھے تاریخ میں لکھا ہے کہ محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے سترواں حملہ نہیں تھا بلکہ سومنات فتح کر کے واپس افغانستان (غزنہ) جار ہا تھا تو دریائے جہلم کے کنارے اس سے ڈاکوؤں نے وہ دولت لوٹنے کی خاطر اس کے لشکر پر حملہ کر دیاجنہیں محمود غزنوی کے لشکر نے شکست دی۔بات ہو رہی تھی محمود غزنوی کے غلام خاص ایاز کی کہتے ہیں کہ ایاز محمود غزنوی کا غلام تھا وہ اپنی دانائی،عقل مندی کی وجہ سے محمود کا وزیر خاص بنا جس سے محمود بڑی محبت اور شفقت سے پیش آیا محمود غزنوی جب ہندوستان پر پندرہ حملے کے چکا اور ہر بار کامیاب رہا تو ہندوؤں نے یہ افواہ پھیلا دی کہ اگر محمود غزنوی سومنات پر حملہ کرے تو سومنات کا دیوتا اسے سزا دے گا جب یہ افواہ پھیلا دی کہ اگر محمود غزنوی سومنات پر حملہ کرے تو سومنات کا دیوتا اسے سزا دے گا جب یہ افواہ ایاز تک پہنچی تو اس نے محمود کو مشورہ دیا کہ ہمیں ہندؤں کے اس عقیدے کو رد کرنے کے لیے سومنات پر حملہ کرنا چاہیے چنانچہ محمود کا سومنات پرسولواں حملہ تھا جیسے نسیم حجازی نے اپنے شہرہ آفاق ناول آخری معرکہ میں تفصیل سے درج کیا ہے۔ایاز کی فہم و فراست اور دانائی سے متاثر ہو کر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ نے بانگ دراء میں اپنی غزل میں ایاز کا تذکرہ یوں کیا۔نہ وہ عشق میں رہی گرمیاں نہ وہ حسن میں رہی شوخیاں نہ وہ غزنوی تڑپ رہی نہ وہ زخم ہے زلف ایاز میں مرحوم کرنل محمد خان بھی اپنی کتاب بجنگ آمد میں ایک علامتی افسانہ یا مضمون قدر ایاز کے عنوان سے شامل کیا پچھلے سے پچھلے سال پنجاب ٹیکسٹ بک کی شائع کردہ میٹرک کی اردو کی کتاب میں شامل کیا گیا تھا ۔قارئین کرام میرا مقصد صرف اس دانائی کو جس کا حامل ایاز تھا آپ تک اس کالم کے ذریعے پہنچانا تھا یہ بات کہا ں تک درست ہے اس کا فیصلہ تو کوئی تاریخ کا طالب علم ہی بہتر طور پر کر سکتا ہے۔{jcomments on}
180