25 جون 2024 بروز منگل جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد میں سیو غزہ مہم کی جانب سے منعقد کردہ راؤنڈ ٹیبل غزہ و مسجد اقصی کانفرنس اہل دانش، علماء، سول سوسائٹی،ممبران پارلیمنٹ، صحافیوں، سیاست دانوں، تاجروں،ٹرانسپورٹرز، طلبہ تنظیموں، وکلاء،اور دیگر قائدین کا ایک نمائندہ اجلاس منعقد ہوا۔
یہ غزہ میں 263 دنوں سے جاری اسرائیلی جارحیت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والے انسانی المیہ پر عالمی طاقتوں کی مجرمانہ چشم پوشی، اپنوں کی بے حسی، اور ذاتی لحاظ سے جائزہ لینے کے لیے منعقد ہوا۔ اس بابرکت کانفرنس کا باقاعدہ اغاز تلاوت قران مجید سے کیا گیاابتدائی کلمات کے لیے سیف غزہ کمپین کی بانی محترمہ حمیرہ طیبہ صاحبہ نے کہا کہ تمام معزز مہمانان کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا ہم ایسے وقت میں یہاں پر اکٹھے ہوئے ہیں جبکہ غزہ میں نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ روزانہ سو سے اوپر شہادتیں ہو رہی ہیں۔ حیرانگی کی بات ہے کہ تمام دنیا چھوٹے سے اسرائیل کے آگے بے بس ہے۔ ہماری یہ مہم 13 نومبر 2023 سے جاری ہے ہمارا مقصد یہ ہے کہ عوامی دباؤ کے تحت مملکت خداداد پاکستان جو کہ عالم اسلام میں ایک دھڑکتے ہوئے دل کی حیثیت رکھتا ہے،
جو اسلام کے نام پر بنا ہے لہذا یہ پاکستان، فلسطین میں ہونے والے بدترین قتل عام اور نسل کشی پر اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ابتدائی کلمات کے بعد اس کانفرنس کے پہلے سپیکر محترم جناب افتخار برنی صاحب نے کہا کہ میرا تعلق پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن سے ہے یہ پاکستان میں واحد سب سے بڑی ڈاکٹروں کی تنظیم ہے۔ یہ صرف ڈاکٹروں کو ان کے حقوق ہی نہیں بلکہ ان کی ذمہ داریوں سے بھی اگاہ کرتی ہے۔ ہیں پیما پاکستان کی ہی نہیں بلکہ 50 سے زیادہ ممالک میں موجود اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کی بانی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کی چھوٹی سی پٹی میں 25 لاکھ مسلمان اباد ہیں جو کہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام سے زیادہ ایمان والے ہیں۔ سارے ہسپتال تباہ ہو چکے ہیں صرف تین ہسپتال رہ گئے ہیں یہاں تک کہ بے ہوش کرنے والی دوائیں تک نہیں ہیں اپ اندازہ لگائیں کہ جب بچوں کے اپریشن کیے جاتے ہیں تو ان کی کیا حالت ہوتی ہوگی۔ پیما کی رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 6ہزار ہے جن میں سے تین ہزار غزہ جانے کے لیے تیار ہیں
اگر گورنمنٹ ہمیں سیف راستہ پرووائڈ کرے تو ہم اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہیں اجمل بلوچ صاحب جو کہ آل پاکستان انجمن تاجران کے صدر ہیں، نے کہا کہ امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ لیڈرشپ کا ہے کہ ہماری لیڈرشپ بزدل ہے اور سارے عالم اسلام کے لیڈرشپ انتہائی بزدل ہے۔ اپنی انجمن تاجران کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے تمام اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا ہے
۔ اور ہم چاہیے کہ بحیثیت قوم ہم اپنی پاکستانی مصنوعات کو پروموٹ کریں۔ اگر ہم بحیثیت قوم پاکستانی پروڈکٹس کو استعمال کریں تو ان ظالموں کا اور ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بوریا بستر پاکستان سے گول کیا جا سکتا ہے محمد سرور خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیف غزہ کمپین کے لوگوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ کتنے بڑے بڑے چیلنجز کا انہوں نے سامنا کیاہے ایڈوکیٹ محترم جناب کرنل انعام نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اج ہم غزہ کے لیے یہاں جمع ہیں۔
بے شک ہم تعداد میں کم ہیں لیکن ہمارا تعلق اہل بدر سے ہے جو 313 تھے ہمارے سامنے ادنی مثال ہے کہ دو سپر طاقتوں کو نہتے افغانیوں نے اپنے جذبہ ایمانی سے شکست دی ہے۔ اللہ کی راہ میں نکلیں کیونکہ یہی قران مجید کا پیغام ہے ہمیں اس پیغام کو ہر جگہ پہنچانا ہے اور صبر اور استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنا ہے تاکہ اللہ ہمیں کامیاب کرے سینیٹرحاجی ہدایت اللہ خان نے اپنا خطاب قرانی آیت و مالکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ سے شروع کیا۔
سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میں اپ سب لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اپ نے مجھے یہاں پر بات کرنے کا موقع دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں اہل قلم تو بہت ہیں۔ لیکن ہمیں اہل اواز بننا ہے۔ غزہ و فلسطین کے مظلوم مسلمانوں جن کی نسل کشی کی جا رہی ہے اور مسجد اقصی کی اواز بننا ہے۔ پارلیمانی طور پر ہمیں فلسطین کے لیے بلند اواز بننا ہو گا۔ علی محمد خان نے کہا کہ بطور پاکستانی یہ لمحہ فکریہ ہے میں نے ایک ایسی ریاست میں انکھ کھولی کہ جہاں کان میں اذان کے بعد جو دوسری بات بتائی جاتی ہے
وہ یہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔ لیکن عملی طور پر پاکستان کے اندر نہ ہی ہمیں لا الہ الا اللہ نظر اتا ہے۔ اور نہ ہی ہم نے اس کے مطابق اپنا کوئی دستور یا ائین مرتب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اج دو ریاستی حل کی بات کر کے بانی پاکستان کی بنائی ہوئی واضح پالیسی سے انحراف کیا جاتا ہے
تو مسئلہ فلسطین کے ساتھ ساتھ ہم مسئلہ کشمیر کو بھی دفن کر دیں گے۔ اور اس پر اپنا بنیادی حق کھو دیں گے قیصر احمد راجہ نے تجویز پیش کی کہ غزہ فنڈ کے لیے ایک بینک قائم کیا جائے تاکہ فلسطینی عوام تک صحیح امداد پہنچ سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف پر خصوصی نظر رکھی جائے کیونکہ وہاں پر ایک ممبر قادیانی ہے اور وہ کافروں کے مفادات کا خیال رکھتا ہے صحافی اصف محمود نے کہا کہ مشتاق احمد خان صاحب اس گونگے معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر پروفیسر زمان خان نے کہا کہ مشتاق صاحب اپ پوری امت کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہیومن رائٹس صرف کرسچن ہیومن رائٹس نہیں ہیں بلکہ جیوز کرسچن ہیومن رائٹس ہیں۔ یعنی پوری دنیا میں صرف یہودیوں اور عیسائیوں کے حقوق ہیں مسلمانوں کے کوئی حقوق نہیں۔پھر انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی طور پر ضرور لڑیں لیکن قومی مفادات کے لیے ضرور کچھ نہ کچھ اکٹھے مل کر کام کریں۔
صحافی جناب حامد میر صاحب نے کہا کہ سیف غزہ کمپین نے بہت بہترین کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشتاق احمد خان صاحب ان کی اہلیہ اور ان کی ٹیم نے جس طریقے سے ریاستی جبر کو برداشت کیا اور ہر طرح کے موسمی حالات کے باوجود ڈٹے رہے اس کی اگر تاریخ لکھی جائے تو یہ قوم کے لیے بہت بڑا اثاثہ ہے آخر میں دعا کروائی گئی اور اس کے بعد یہ انتہائی بابرکت اور خوبصورت پروگرام اختتام پذیر ہوا۔
اخر میں سیف غزہ کمپین کے تمام سرفروش اور جفا کش نوجوانوں نے بھرپور طریقے سے نعرے لگا کر اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اس عزم کا اعادہ کیا کہ پورے پاکستان کے اندر بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم فلسطین اور غزہ اور مسجد اقصی کی اواز کو بلند کیا جائے گا ان شاء اللہ۔