حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت ایک ایسے معاشرے میں ہوئی جس کے باسی ان پڑھ تھے سوائے چند افراد کے وہ بھی واجبی لکھنا پڑھنا جانتے تھے کوئی مدرسہ نہیں تھا جہاں سے تعلیم حاصل کی جائے ایک ایسا معاشرہ جو اپنی عداوت ودشمنی صدیوں تک اپنے دل کے کسی حصے میں چھپا کر رکھتا تھا جب موقع ملے بدلہ ضرور لیتا تھا اس کی اخلاقی گراوٹ تو اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے ہی ہاتھوں سے زندہ در گور کر دیتے تھے چن کی نہ کوئی مرکزی حکومت تھی اور نہ ہی کسی مرکزی حکومت کا حصہ تھے یہ آزاد منش لوگ تھے نہ ہی ان کے پاس کوئی قانون تھا سود اور شراب تو ان کی رگ رگ میں رچے بسے تھے آپ علیہ الصلواۃ والسلام نے اس معاشرے میں اس کے رسم ورواج کے مطابق پرورش پائی لیکن ان رزائل اور خباثتوں سے ہمیشہ ایسے پاک و صاف رہے جیسے اپنی والدہ ماجدہ سلام اللہ علیہا کے شکم مبارک سے دنیا پر ظہور فرمایا تھا اور کسی فرد واحد کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیے کیونکہ خلق کل ہی تو آپ کو ماکان وما یکون پڑھانے اور سیکھانے والا ہے دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی بنا پر امی القب ہیں اس قسم کے معاشرے میں پرورش پانے کے باوجود انفرادی اجتماعی‘ قومی‘بین الاقوامی‘ عائلی‘ زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط دے دیے پسے ہوئے طبقات کو ذلت ورسوائی سے نکال کر کعبے کی چھت پر کھڑا کر دیا ہر طبقے کو حقوقِ و فرائض دے دیئے جو تا قیام قیامت تمام بنی نوع انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں جس بھی معاشرے نے ان قواعد و ضوابط کو مضبوطی سے تھام لیا وہ فلاح پا گیا حضور رحمت عالمؐ نے فرد کو وہ حقوق دئیے جن کا پہلے تصور بھی محال تھا ایک فرد کو ماں کے پیٹ سے لے کر برزخی زندگی تک تمام حقوق عطا فرما دئیے‘اسقاط حمل سے منع فرما کر ماں کے پیٹ میں زندگی کا حق دے دیا پیدائش کے بعد اچھا نام‘ عقیقہ‘دو سال تک ماں کو دودھ پلانے کا حکم‘ تعلیم و تربیت‘ شادی‘مرحوم کے قرض کی ادائیگی‘تجہیز و تکفین‘ نیک اولاد کا والدین کے لیے دعا و صدقہ و خیرات کرناوغیرہے عورت کو وہ مقام و مرتبہ عطا کی جس سے وہ صدیوں سے محروم تھی جس نے دو لڑکیوں کی اچھی تربیت کی وہ جنت میں (دو انگلیوں کا اشارہ کر کے فرمایا ایسے) میرے ساتھ ہو گا ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے کہ اولاد میں برابری قائم کیا کرو اگر کسی کو فوقیت دینی ہو تو بچیوں کو دیا کرو اور جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے فرما کر عورت کی عزت ناموس قدر و منزلت کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ وراثت میں حصہ عنایت فرما دیا‘ والدین‘ رشتہ داروں اور ہمسایوں کو ایک دوسرے پر حقوق و فرائض دے کر شیر و شکر کر دیا اور مدینہ منورہ میں ایسی حکومت کی جس کی نظیر نہیں ملتی ایک نوزائیدہ ریاست جس کی تقریباً آدھی آبادی مہاجرین پر مشتمل تھی جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خالی ہاتھ مدینہ منورہ ہجرت فرما کر آئے تھے ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا اور نہ ہی رہنے کے لیے مکان ان کو چند دنوں میں ہی مواخات مدینہ قائم کر کے روٹی کپڑا اور مکان دے دیا جو اتنا آسان نہیں تھا اس طرح آنے والے حکمرانوں کو بتا دیا کہ انسانی بنیادی ضروریات پوری کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ساتھ ہی ساتھ میثاق مدینہ کی شکل میں دنیا کو پہلا تحریری دستور دے دیا اسی طرح جنگ کے نظریات و طریقہ کار کو ہی بدل کر رکھ دیا فرمایا رات کے اندھیرے میں شب خون نہیں مارا جائے گا اس کا خود عملی مظاہرہ بھی کر کے دیکھایا غزوہ خیبر میں رات کے وقت پہنچ گئے لیکن حملے کے لیے صبح کا انتظار کیا عورتوں‘بچوں
‘بوڑھوں‘ بیماروں اور جو بغیر ہتھیار کے ہوں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا فصلوں اور درختوں کو کاٹنے اور جلانے سے بھی منع فرما دیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس سالہ دور میں 28 غزوات اور تقریباً 55 سریا ہوئے لیکن ایسے انداز سے جنگ لڑی کہ کم ازکم جانی نقصان ہواسی لیے ان 83 جنگوں میں جانبین کی طرف سے تقریباً ایک ہزار کے لگ بھگ لوگ مارے گے جبکہ آج صرف افغان جنگ میں لاکھوں لوگ مارے گے فرق آپ کے سامنے ہے آپ ؐ نے ریاست مدینہ قائم کرنے کے ساتھ ہی مختلف ادوار میں مختلف قبائل کے ساتھ بلا تفریق رنگ ونسل معاہدے کر کے اپنی ریاست کے بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد رکھی اور فتح مکہ کے بعد آپ ؐ نے بین الاقوامی تعلقات پر بھر پور توجہ دی دوسرے قبائل اور ریاستوں سے تعلقات قائم کئے جبشہ‘ بحرین‘ کسریٰ ایران‘ قیصر روم‘ مقوقس مصر سب کے پاس اپنے سفراء کو بھیجا اور دوستی کا ہاتھ بڑھایا یوں دوسرے قبائل اور ریاستوں کے سفراء آنے لگے 9 ہجری کو اتنی کثرت سے وفود آئے کہ اس سل کو عام الوفود کہا جانے لگا دشمن کے سفیر کو بھی عزت و احترام کے ساتھ رکھا جیسے مسیلمہ کذاب جھوٹے مدعی نبوت کا سفیر آیا تو بڑے احترام سے پیش آئے رؤسا اور حاکمین وقت کو تحائف بھیجے بھی اور خود قبول بھی کیے اگر کسی نے ذرا بھر بھی ریاست کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو اپنی عزت ووقار پر حرف نہ آنے دیا بلکہ دندان شکن جواب دیا جنگ موتہ اس کی واضح دلیل ہے جب دنیا علم سے نابلد تھی تو لوگوں کو اس طرف راغب کیا آپ ؐ پر پہلی وحی بھی تعلیم اور جدید سائنسی علوم کے متعلق نازل ہوئی تھی اسی لئے آپ ؐ نے تعلیم پر بھر پور توجہ مبذول فرمائی فرمایا مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ایک اور حدیث مبارکہ میں ارشاد ہے علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے اس کے لیے عملی اقدام بھی اٹھائے غزوہ بدر کے قیدیوں کو ترغیب دی جو لکھنا پڑھنا جانتا ہوں وہ دس مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سیکھا دے وہ آزاد ہے الصفہ چبوترہ پر مستقل تدریس کا بندوبست فرمایا اور صحابہ کو دوسری زبانیں بھی سیکھنے کی ترغیب فرمائی الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر ہر جہت میں ہماری راہنمائی فرمائی جب تک مسلمان ان تعلیمات سے استفادہ کرتے رہے دنیا پر حکمرانی کرتے رہے جوں ہی ان تعلیمات کو پس پشت ڈالا خدا نے بلندی سے پٹخ کر زمیں پر دے مارا اگر آج بھی ہم انفرادی قومی بین الاقوامی سطح پر کامیابی و کامرانی کے خواہاں ہیں تو محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتاے ہوئے اصولوں پر چلنا ہو گا۔
155