محبت اور عشق کو عموما ایک ہی معنی میں لیا جاتا ہے اگر چہ ان کے درمیا ن واضح فرق ہے ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کبھی محبت کا دعوی کرتے ہیں اور کبھی عشق کا۔محبت کے لیے محبوب کا ہونالازمی امر ہے اور اس میں ایک اورچیز کابھی دخل ہے وہ ہے نفسیانی خواہشات جبکہ عشق ان سے مبرا اور عالی ہے در اصل محبت کا انتہائی پہلو عشق ہے محبت کا تعلق عقل سے کیا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ قیس نے جس سے محبت کی تھی وہ کالی رنگت کی حا مل تھی عین ممکن ہے کہ لیلیٰ کے چہرے کے نقوش نے قیس
کو جاذب کیا ہو۔
اگر مان لیا جائے کہ لیلیٰ واقعی بد صورت تھی تو قیس کی اس محبت کا موازنہ ہماری روز مرہ کی زندگی سے کیا جائے تو اول الذکر محض الف لیلائی داستان معلوم ہوتی ہے کیونکہ ہماری محبت حسن پرست ہے ہم نے دور جدید کی محبت کو کبھی شکل و صورت سے متاثر ہوتے دیکھا ہے تو کبھی مال و دولت سے البتہ اسے سیرت سے متاثرہوتے نہیں دیکھا ہے جب ہم کھی شکل و صورت سے یا مال و متاع سے متاثر ہوتے ہیں تو دعوی کرتے ہیں بے انتہا محبت کا اورمذید بڑھ کر عشق کا نام دے دیتے ہیں اور تادم مرگ ساتھ رہنے اور جان تک قربان کرنے کے دعوے کر دیتے ہیں مگر اپنی خواہشات کی تکمیل کے بعد محبت کا تناوردرخت بنا باد چلے ہی گر جاتا ہے
جن کے بنا کبھی زندہ رہنے کا تصوربھی نا ممکن ہو ا کرتا تھا۔اب ان کے ساتھ زندہ رہنا محال دکھائی دیتا ہے بلکہ اذیت بن جاتا ہے چاند تارے توڑنے اور جان قربان کرنے کے وعدے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں بلکہ جان لینے کے درپے ہو جاتے ہیں درحقیقت ہم عشق کا نام لیتے ہیں اور پہنچے محبت کی دہلیزتک بھی نہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ جو لوگ عشق تک پہنچنے میں کامیا ب ہوئے ہیں ان کے جزبے صادق تھے
والدین بہن بھائیوں بیوی اور بچوں سے محبت ایک فطری امر ہے والدین کی محبت مزکورہ تمام رشتوں پر جاوی ہوتی ہے اور ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اتنی ہی شدید ہوتی ہے جتنی کہ ان کی زندگی میں ہوا کرتی ہے گویا والدین اور دیگر خونی رشتوں کی محبت عشق کے زینے تک پہنچتی دکھائی دیتی ہے مگر اس تک پہنچنے والے بھی خال خال نظر آتے ہیں۔بالعموم محبت موجود سے ہوتی ہے اور موجود سے شد ید ترین محبت عشق کے درجے کو پہنچتی ہے۔ اس جملے کے بر عکس ایک اور محبت بھی ہے
جو بالخصوص بظاہر نا موجود سے ہو کر عشق کا روپ دھارتی ہے اور توحید کی صورت جلوہ گر ہوئی ہے۔ بالعموم محبت کے ذکر میں حسن یوسف” ایک مشہور تلمیح ہے اور محبت زلیخاکو اگر عشق قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا اس عشق میں عقل کارفرما تھی عقل پر حسن یوسف کارگر ثابت ہوا گویا کہا جا سکتا ہے کے اگر حضرت یوسف کو رب تعالیٰ نے حسن نہ دے رکھا ہوتا تو پھر زلیخا کو ان سے عشق نہ ہوتا یوں اس مشہور قصے کا اصل محرک حسن کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے کہ جس کے سحر میں آکر مرعوب ہونے والی زنان مصر کو اپنی انگلیوں تک کے کتنے کا احساس نہ ہوا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خوب صورتی اور حسن نفسانی خواہش کے پیدا ہونے کا سبب ہے اور صنف مخالف کا ایک
دوسرے سے متاثر ہونا ایک فطری امر ہے لہذا زنان مصر کی نادانستہ کٹنے والی انگلیاں نہ تو محبت کے سبب سے تھیں اور نہ عشق کی وجہ سے وہ محض حسن کے سحر کا اثر تھا۔ درج بالا بحث سے ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ پھر عشق کیا ہے؟
اس سوال کا جواب تاریخ سے یوں آشکار ہوتا ہے جب ایک لشکر جرار کا غرور نہتے، فاقہ کش اور تعداد میں محض 313 خاک میں ملاتے ہیں اور یہ تاریخی کارنامہ عشق کے بنا نا ممکن تھا۔ معر کہ بدر میں ہمیں موجود اور بظاہر نا موجود دونوں سے عشق کا اظہار ملتا ہے اور پھر عشق ہمیں احد کے میدان میں انسانی ڈھال کی صورت میں نظر آتا ہے شمع رسالت کے گرد پر وانے دیوانہ وار جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہوتے ہیں
انسانی ڈھال میں مرد و زن سبھی شامل تھے۔ حضرت ام عمارہ اپنے شوہر اور بیٹوں کے ساتھ ہادی اعظم کی ڈھال بنی ہوئی ہیں دشمنوں کے عزائم خاک میں ملاتی ہیں آپ کے عشق کا یہ عالم تھا کہ شوہر اور بیٹے شہید ہو گئے مگر آپ خوش ہیں کہ نبی برحق سلامت ہیں۔
عشق یہ ہے کہ محبوب کے دندان کی شہادت کی خبر جب عاشق کو ملے تو وہ غم سے نڈھال ہو کر ان دیکھے محبوب کی تکلیف تصور میں لا کر نا دانستہ نہیں بلکہ دانستہ اپنے دندان کو قربان کر دے۔ محض نا دانستہ زنانہ انگلیوں کا کتنا عشق نہیں بلکہ دانستہ گردنوں کا کٹنا عشق ہے۔ ہماری 1400 سالہ تاریخ شاہد ہے کہ شمع رسالت کے پروانوں نے رسالت کی خاطر گردنیں کٹا دیں۔ کیا عجیب بات ہے کہ حضرت یوسف کے لیے اب کوئی انگلی نہیں کٹتی اور حضرت محمدؐ کی ناموس رسالت کی خاطر تا قیامت بلا تفریق مرد وزن خوشی خوشی گردنیں کٹتی رہیں گی۔