146

مبالغہ /راجہ غلام قمبر

زمانہ طالب علمی میں سرائیکی و سیب سے تعلق داری قائم ہوئی بچپن سے دوھڑے سننے کی وجہ سے سرائیکی سے ایک الفت سی پیدا ہو گئی اور یوں جب سراےئکی بولنے والے احباب سے تعلق بنا تو یہ الفت دو چند ہو گئی ۔ بچپن میں جب کہی فوجی بندہ ملتا تو ان میں سے کسی نہ کسی کا پوٹھوہاری لہجہ خالص نہ ہوتا بچے ان کی متفرق لہجوں کی ملغوبہ گفتگو سنتے تو اس سے مزہ کشید کرتے یہ صورتحا ل شائد اب بھی ویسی ہی ہے ۔ملغوبہ لہجوں سے مزہ کشید کرتے ہوئے تعجب بھی ہوتا تھا کہ کیسے ان لوگوں کا لہجہ مختلف اسالیب کا ملغوبہ بن گیا اور ساتھ ہی مصمم ارادہ کرتا رہتا کہ اگر کبھی مختلف النوع لہجوں سے سابقہ پڑا تو میں اپنا لہجہ خالص ہی رکھوں گا الحمدللہ اس میں کامیاب رہا اور اس کے دو فوائد ہوئے ایک تو اپنے لہجے کا خالص پن اور دوسرا دیگر لہجوں میں گفتگو کا سلیقہ بھی آ گیا۔بلخصوص سرائیکی میں گفتگو پر کافی ملکہء حاصل ہو گیا تھا۔ اسی بدولت مسرائیکی میں اب بھی کسی حد تک گفتگو کر لیتا ہوں۔ زمانہ طالب علمی ( میرے خیال میں یہ زمانہ اصولی طور پر تمام عمر ختم نہیں ہوتا )میں ایک بار امضان المبارک کی سحری تناول کرنے کے بعد ملتان سے برادرم رضوان کاظمی کا فون آ گیا اتفاق سے تمام اہل خانہ اس وقت ٹیلیفون والے کمرے میں ہی دوران گفتگو میں نے جواب میں کہا ’’شا ہ جی ! ۂلیں تساں اپ کریندے او تے اکھدے اساں کو او ‘‘کال ختم ہونے کے بعد والدہ محترمہ اس بات پر متعجب ہوئیں کہ مجھے فون پر کوئی دوست ’’گالیاں ‘‘ دے رہا ہے کیوں کہ مجھے کال کرنے والے تمام احباب شائستہ ‘ شستہ اور مہذب انداز میں گفتگو کرتے تھے ۔میری غیر موجودگی میں والدہ کا کژ ٹیلیفون سننے کے بعد یہ ذہن بنا تھا ۔لہذا انہوں نے ’’گالیاں‘‘پر اعتراض کیا اور پوچھا کہ ایسا نا ہنجار میرا دوست کب سے بنا ہے ۔اتفاق سے مجھے والدہ محترمہ کے اعتراض کی وجہ فورا ہی سمجھ میں آ گئی کہ یہ اشتباہ سرائیکی میں گفتگو کی وجہ سے ہوا کیوں کہ سرائیکی میں ’’گہلیں ‘‘ قریب بوزن’’گالی ‘‘ ’’باتوں ‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ ہماری ’’گالیوں‘‘ کے معنی میں ۔مندرجہ بالا واقع مجھے پچھلے شمارہ میں اتک دوست کالم نگار کا مضمون پڑھ کے یاد آیا جس میں انہوں نے عربی لفظ ’’وَ یل‘‘اور پنجابی لفظ ’’وِیل‘‘کی ظاہری شباہت سے ایسا نقطہ نکالا کہ میں تو کافی دیر تک حیرت کے سمندر میں مستغرق رہا کہ’’ کس کو کیا سے کیا بنا دیا‘‘مجھے صرف ان کے استدلال و استنباطِ علمی اختلاف ہے کہ انہوں نے بالکل بے تکی تشبہیہاستعمال کی جس کی وجہ سے حسن مضمون اور نتیجہِ مضمون کرکرا ہ سا ہو گیا (سوشل میڈیا پر طالبان و داعش کے مخالف پوسٹ کیجئے اور پھر قرآن و حدیث کے مطالب دیکھئے بات زیادہ آسانی سے سمجھ آ جائے گی)اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ فضول خرچی اور لہو و لعب پر پیسہ اڑانا دینی اعتبار سے انتہائی نا پسندیدہ عمل ہے جبکہ فضول خرچی تو خیر ایسا جرم ہے کہ غیر دینی معاشرے بھی اس کہ حوصلہ افزائی نہیں کرتے ۔
اس مضمون میں صاحبِ مضمون نے الفاظ کے استعمال میں بھی ’’صحافتی اقدار ‘‘کا خیال نہ رکھا کیوں کہ صحافت میں ایسے نام یا اشارے استعمال نہیں کیے جاتے کہ جن سے حقارت کی بو آتی ہو اور بلخصوص وہ الفاظ تو بالکل ہی استعمال نہیں کیے جاتے جو ’’گالی‘‘کے ضمرے میں آتے ہوں اس اعتبار سے دیکھا جائے تو صاحب مضمون نے مضمون کی شروعات ہی ’’گالی‘‘سے کی (میں خود وہ الفاظ بطور مثال بھی پیش کرنا درست نہیں سمجھتا )
دوسرا نکتہ جو میری نظر میں کم علمی کا ثبوت ہے و ہ ’’مرثیہ‘‘کو شادی بیاہ کی رسومات سے منسلک کرنا ہے مرثیہ کے حوالے سے بتاتا چلوں کہ اردو شاعری میں کسی کے انتقال کر جانے پر مرحوم کی محبت میں اس کی موت کے حوالے سے جو شاعری کی جاتی ہے اس کو ’’مرثیہ ‘‘ کہتے ہیں۔مرثیہ میں انتقال کر جانے والے کی خصوصیات مثلااخلاقیات ‘عبادات ‘کردار ‘علم‘مرنے کے حالات ‘ مرنے والے سے اپنے مراسم اور س کی موت سے ہونے والے اپنے نقصان کی بابت شاعری کی جاتی ہے اور یوں انتقال کر جانے والے کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔برصغیر میں میر ببر علی انیس اور مرزا دبیر کے مرثیوں کی ایک اپنی رفعت و منزلت ہے اور اسی اوج کی وجہ سے جب بھی لفظِ مرثیہ سننے یا پڑھنے میں آتا ہے تو اکثر لوگوں کا خیال ’’واقعہ کربلا‘‘ کی طرف چلا جاتا ہے۔دوست کالم نگار سے ارض ہے کہ شادی بیاہ کے موقع پر کسی بھی مقام پر موت یا موت سے متعلق کوئی شاعری (مرثیہ )تو کجا اشارتا ایسی بات بھی نہیں کی جاتی چونکہ شادی بیاہ کے مواقع خوشی کے لمحات ہوتے ہیں اور ایسے مواقع پر خوشی کی باتیں ہی مناسب ہوتی ہیں۔’’مرثیہ ‘‘ کو شادی بیاہ کی رسومات سے منسلک کرنا عجب ہی نہیں نا معقول بھی لگا ۔مارے حیرت کے دوبارہ مکمل فقرہ پڑھا تو شروع میں ’’شرکیہ قوالی ‘‘اور ’’کسیدہ‘‘کا زکر دیکھا تو پھر تمام حیرت جاتی رہی کیوں کہ سارا ماجرہ ہی سمجھ میں آگیا تھا کہ لکھنے والے کے’’ اسٹیشن ‘‘ کی ’’فریکونسی‘‘کیا ہے۔
پسِ تحریر ! علمی نکات پر مبنی جواب علم میں اضافہ کا موجب ہو گا اور صرف اعتراض برائے اعتراص کا جواب نہ دوں گا ۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ یہ تحریر اپنی علمیت جھاڑنے یا کسی کی تحقیر کا سبب لئے ہوئے نہ ہے بلکہ صرف اور صرف اپنی معلومات اور دوست کالم نگار کی تحریر کے موازنہ سے جو نکات سامنے آئے وہ حوالہ قرطاس کر دئیے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں