گوجر خان کا گاؤں بھاٹہ اس وقت علمی ادبی سماجی مذہبی خدمات اوراصلاحی تحریکوں کی وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اس گاؤں کی وجہ سے اس کے آس پاس کے گاؤں میں بھی بڑی علمی، ادبی سماجی،سیاسی و روحانی شخصیات نے جنم لیا اورہر ایک نے اپنے اپنے میدان میں بڑا نام کمایا ہے اس کی وجہ اہلیان بھاٹہ کی مثبت اور اصلاحی سرگرمیاں ہیں اس قدیمی اور تاریخی گاؤں میں خطہ پوٹھوہار کے معروف محقق ناول نگار, افسانہ نگار اور سیرت پر سند امتیاز یافتہ کتاب۔خلقت نے سردار کے مصنف اور ہر دل عزیز شخصیت جناب قمر محمود عبداللہ، ظفر محمود چشتی اورنئے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کمپیئرجناب تیمور اکبر جنجوعہ جیسی اہم ادبی شخصیات نے جنم لیا ہے
جو اپنی انفرادی حیثیت اور ادبی حلقوں میں ہم مقام و مرتبہ رکھتے ہیں ان شخصیات کے ساتھ نئے ابھرتے ہوئے اردو اور پوٹھوہاری کے نوجوان شاعر نثر نگار اور ادیب جناب قیصر لال جنجوعہ بھی ہیں جو 28 اپریل 1981 کو تحصیل گوجر خان کے گاوں بھاٹہ میں لال حسین کے گھر پیدا ہوئے ان کی زندگی حصول تعلیم اور فروغ تعلیم میں ہی بسر ہو رہی ہے کیونکہ ان کا ذریعہ معاش تعلیم سے وابستہ ہے اگر ان کی تعلیم کی بات کی جائے تو اس وقت ایم اے اردو،ایم ایس سی اوربی ایڈ کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں جب کہ مسلم یوتھ یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم فل کی ڈگری کے حصول کے لیے کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں جب طبیعت حساس ہو پھر کسی کے غم دکھ اپنے محسوس ہوں دنیا میں مٹتی انسانیت کا ہر باب آنکھوں کے سامنے ہو تو ایسی کیفیات میں کچھ تحریر کرنا ضروری ہو جاتا ہے
یہی حالت قیصر جنجوعہ صاحب کی بھی ہے اپنے خیالات اور محسوسات کو قلم بند نہ کیا جائے تو اپنے آپ پر
ماتم کرنے کوجی کرتا ہے ان وجوہات کی بنا پر آپ نے لکھنے کا آغاز 2011 سے بطور کالم نگار ی سے کیا زیادہ تر کالم اپنے استاد جناب زاہد حسین چغتاتی کی رہنمائی میں نوائے وقت میں شائع کروائے ان کے کالم سماجی سیاسی موضوعات کے ساتھ ادب اور ادبی شخصیات پر ہیں مطالعہ اور ریاضت سے ان کی نثر میں دن بدن نکھار پیدا ہو رہا ہے یہ اپنا الگ رستہ بنانے میں سرگرم نظر آتے ہیں ان کی خوبصورت نثر اور اس میں روانی دیکھ کر بہت حیرت اور خوشی ہوتی ہے اور ان سے اصرار کرنا پڑتا ہے کہ اگر یہ کالم کے علاوہ افسانہ نگاری میں قدم رکھیں تو اردو ادب کو اردو نثر کے ساتھ ایک اچھے افسانہ نگار کے طور پر بھی میسر آ سکتے ہیں
ان کے کالموں کی کتاب زیر طبع ہے امید ہے کہ یہ کتاب کالم نگاروں کے حلقوں اور ادبی دنیا میں اپنی پہچان ضرور بنائے گی اور ان کے ادبی قد میں اضافہ کرے گی بطور اردو اور پوٹھوہاری شاعر 9 سال کی ریاضت کے بعد انہوں نے2020 میں اردو اور پوٹھوہاری شاعری کے میدان میں قدم رکھا ان کی اردو کے ساتھ پوٹھوہاری زبان میں کافی غزلیں پڑھنے کو مل رہی ہیں
ادب کے فروغ اور بقا کے لیے واٹس ایپ گروپس میں بھی متحرک دیکھائی دیتے ہیں اہم بات ان کا تعلق پوٹھوہاری زبان کے مرکزی لہجے سے بھی ہے اس وجہ سے ان کی پوٹھوہاری زبان اور شاعری کا خوبصورت انداز محاوروں، تشبیعات، علامتوں اور تلمیحات سے بھر پور ہوتا ہے عام قاری کے ساتھ شعرا بھی ان کی شاعری سے لطف انداز ہوتے ہیں اور بھر پور داد دیتے ہیں فنکار اور لکھاری کو داد ہی آگے بڑھنے کے لیے ابتدائی سیڑھی کا کام کرتی ہے ان کے لہجے میں احساس کی نرمی شدت سے پائی جاتی ہے اور ہر ادبی سیاسی سماجی مسئلے پر گہری نظر رکھتے ہیں اس پر بار بار سوچتے ہیں اس کے بھی گہرے اثرات ان کی شاعری پر نمایاں ہیں ان کی مادری زبان پوٹھوہاری ہے اس وجہ سے ان کی زبان صاف ہے ان کو یہ زبان سیکھنے کے لئے کسی فرد یا ادارے میں جانے کی ضرورت نہیں پڑی ان کے پوٹھوہاری شاعری سے چند اشعار ملاحظہ کریں
دلاں ای روشن کرنے آلے
کدے جگنو پورے نی
جندڈی نال مخول پیا ہونڑا
مہنگا کہیو پٹرول پیا ہونڑا
آٹے نی اک مٹھی ماریوں
چارے پاسے کہول پیا ہونڑا
اگر ان کے زیر مطالعہ مضامین دیکھیں تو ان کا رجحان اردو کی طرف زیادہ مائل نظر آتا ہے ان کی ابتدا بھی اردو کالم نگاری سے ہی ہوئی اس کے ساتھ بطور ٹیچر اردو مضامین کو ہی ترجیح دیتے ہیں اسی وجہ سے ان کا مطالعہ اچھا ہے خاص کر کلاسیکی روایت ان کے ایم ایاردو میں بطور مضامین شامل تھی انہوں نے ااس کا گہرا مطالعہ کیا اس سے ان کے ادبی فن پاروں میں نکھار آیا اسی وجہ سے یہ اردو میں بھی روایت سے جڑ کر شاعری کرتے ہیں کیونکہ تمام اصناف میں غزل شعرا کی پسندیدہ صنف ہوتی ہے یہ بھی اسی صنف میں طبع آزمائی کرتے دکھائی دئیے
ان کی اردو غزل کے دو شعر پیش خدمت ہیں
ایک مدت سے خشک ہیں آنکھیں
گال اشکوں سے نم نہیں ہوں گے
عین ممکن ہے لوٹ آئے گا
عین ممکن ہے ہم نہیں ہوں گے
گوجر خان کے اہل قلم اساتذہ
چونکہ ان کا ذریعہ معاش بھی ایجوکیشن ہی سے ہے اسی مناسبت سے ان کا اپنے گورنمنٹ قلم کار اساتذہ میں بیٹھنا ان کو سننا ان سے علمی و ادبی گفتگو کر نا ان کے لیے فخر سے کم نہیں ہے سب سے اہم بات یہ پوٹھوہار کی ادبی تنظیموں کے زیر اہتمام پروگراموں میں بطور نثر نگار اور شاعر شرکت کرتے رہتے ہیں اور اپنے مضامین اور شاعری سے شعرا اور سامعین کو محظوظ کرتے رہتے ہیں گہرے مطالعہ اور پروگراموں سے ان کے اندر تحریک پیدا ہوئی کہ تحصیل گوجر خان کے اہل قلم اساتذہ پر تحقیقی کام ہونا چاہیے اور ان کی علمی ادبی خدمات کو کتابی صورت میں شائع کرنا چاہیے
اس جستجو میں دن رات ایک کر دیا اور پورا گوجر خان چھان ڈالا اور قمر عبداللہ کی رہنمائی میں ان تھک محنت اور تحقیق کے خوبصورت کتاب 2022 میں مرتب کر کے بطور محقق خود کو متعارف کروایا اور کئی گمنام اساتذہ کو بھی تاریخ کا حصہ بنایا اس عنوان پر پاکستان میں پہلی بار اتنا معیاری اور تحقیقی کام ہوا ہے اس کتاب کو ادبی حلقوں میں کافی سراہا جا رہا ہے اس کتاب کی تقریب رونمائی پوٹھوہار آل عمران لائبریری گوجرخان ہوئی اور بہت یادگار تقریب تھی اس میں شعرا اہل ذوق اور اساتذہ نے شرکت کی اور قیصر جنجوعہ صاحب کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا
اس موقع پر انہیں انٹرنیشنل رائٹرز فورم کی طرف سے ایوارڈ سے بھی نوازا گیاان کی شاعری کالم نگاری اور اس نایاب تحقیقی کام کو ادبی نظر سے دیکھآ جائے تو ان کا ادبی سفر زیادہ عرصہ نہیں بنتا لیکن ان کی محنت مسلسل مشق سخن اور اس تحقیقی کتاب سے ادبی حلقوں میں اپنی شناخت بنانا بڑے اعزاز کی بات ہے لیکن ادب میں زندہ رہنے کے لیے مسلسل چلنا پڑتا ہے ان کی انتھک کوشش اور سفر سے محسوس ہو رہا ہے اک دن ادبی دنیا میں اپنی الگ پہچان بنا سکیں گے۔