قلم کاروان،اسلام آباد کے زیر انتظام ایک عظیم الشان پروگرام بعنوان’یوم تکبیر‘ منگل 28مئی 2024 بعد از نمازمغرب G6/2اسلام آبادمیں منعقدہوا۔ پیش نامے کے مطابق مباحثہ بعنوان ’یوم تکبیر‘ طے کیاگیاتھاجس میں چار مقالات پیش کئے گئے۔معروف شاعر اوردانشور جناب عبد ا لر شیدثاقب نے صدارت کی۔
جناب ڈاکٹر آ غا نورمحمدپٹھان نے تلاوت قرآن مجیدکی،جناب مرزاضیاء الاسلام نے مطالعہ حدیث نبوی ﷺ کی سعادت اور جناب ڈاکٹرصلاح الدین صا لح نے نعت بحضورسروردوعالم ﷺترنم سے پیش کی۔صدرمجلس کی اجازت سے مباحثہ کاآغازہوا،سب سے پہلے بزرگ کالم نویس اور سرپرست قلم کاروان اسلام آباد جناب میرافسرامان نے’یوم تکبیر؛یوم تدبیر‘کے عنوان سے اپنامقالہ پیش کیا،اس کے بعدماہرعلوم اسلامیہ اورشاعر جناب ڈاکٹریاسرحسین ستی الخیری نے ’یوم تکبیر‘کچھ یادیں کچھ باتیں‘کے
عنوان سے اپنی تحریر پیش کی،بعدازاں
صاحب کتاب شاعر اور مصنف و محقق جناب گروپ کیپٹن(ر) شہزاد منیراحمدنے’یوم تکبیر‘پس منظروپیش منظر‘کے عنوان سے اپنی تفصیلی تحریری مساعی سامعین کو پڑھ کرسنائی اورآخرمیں معروف قانون دان اور نقاد جناب ساجدحسین ملک نے’یوم تکبیر؛پاکستان کی تاریخ کااہم زریں دن‘کے عنوان سے اپنا مضمون شرکاء مجلس کوسنایا،تمام مقالہ نگاران نے اس دن کی مناسبت سے بہت جامع تقریریں کیں اوربتایاکہ
پچاس کی دہائی سے اس منزل کی طرف پیش قدمی جاری تھی اور اسی کی دہائی کے آغازمیں وطن عزیز، یہ صلاحیت مکمل طورپر حاصل کرچکاتھا،مقالہ نگاران نے ڈاکٹرعبدالقدیرخان رحمۃ اللہ علیہ سمیت سیاسی و عسکری قیادت کابھی ذکرکیا جن کی دلچسپی سے یہ کارخیراپنے انجام خیرکوپہنچااورکل امت مسلمہ نے اس پر شادمانی کااظہارکیا، اس وقت کے حالات کا تجزیہ کرکے ثابت کیاگیاکہ ایٹمی طاقت کااظہارناگزیرہوچکاتھاتاہم سب نے بالاتفاق یہ موقف پیش کیاکہ اظہارقوت کے بعد ملک و ملت کوترقی کی طرف گامزن ہوناچاہیے
تھا جب کہ نتائج اس کے برعکس نکلے اوراس کی ذمہ داری سب نے قیادت پر ڈالی۔ راقم الحروف قاری محمد شہزاد احمد یلدرم نے جو تحریری معروضات پیش کیں، ان کے مطابق جیسے پاکستان کا بننا ایک معجزہ قرار دیا گیا اسی طرح وطن عزیز کا ایٹمی قوت حاصل کرنا بھی کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رحمۃ اللہ علیہ اور انکی ٹیم نے اپنی ذاتی زندگی کی تمام خواہشات اور ضروریات کو تج کر کے اپنا تن من دھن سب کچھ اس وطن کے لیے قربان کر دیا۔
اور دن رات محنت کر کے اس ایٹمی صلاحیت کو حاصل کر کے اپنے ملک وطن عزیز پاکستان کو ناقابل شکست بنا دیا۔ لیکن وطن عزیز کی بد نصیبی کہ پاکستان کو ایسا بدبخت ایک حکمران نصیب ہوا، جس کے دور میں اس ظالم بدبخت نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اور کافروں کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے، اور وہ ایجنڈا کیا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کیا جائے۔ اس خبیث مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس بدبخت حکمران نے پاکستان کے نامور اور مایہ ناز ایٹمی سائنس دانوں کی کردار کشی کی مہم شروع کی۔ جس کا سب سے پہلا نشانہ سلطان بشیر الدین محمود بنے۔
کہ جن کی والدہ نے عدالت میں کھڑے ہو کر وہ تاریخی الفاظ کہے کہ اج کے بعد میں پاکستان کی ماؤں کو نصیحت کرتی ہوں کہ کوئی بھی سائنس دان پیدا نہ کرنا۔ کیونکہ جب یہاں پر ایٹمی سائنس دان پیدا کیے جائیں گے تو اس کی بدترین سزا حکمرانوں کی طرف سے دی جاتی ہے۔ پھر یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ جا کر یہ اس سلسلے پر ختم ہوا کہ جب ایٹمی سائنس دان اور اس ملک عظیم محسن پاکستان کو ٹی وی پر لا کر باقاعدہ معافی منگوائی گئی۔ اور نہ کردہ جرموں کی ایک فہرست تھما کر اس کے سوکھے اور لرزتے ہونٹوں سے اپنے اقاؤں اور انداتاؤں کو خوش کرنے کے لیے وہ الفاظ کہلوائے گئے کہ جس سے پوری قوم اور امت کا سر شرم سے جھک گیا۔ اور پھر اس کے بعد اس محسن پاکستان کی زندگی اجیرن کر دی گئی اور اس کا جینا حرام کر دیا گیا
اور جب تک وہ زندہ رہا ایک عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔ پاکستان کے مایہ ناز صحافی جناب سہیل وڑائچ کے ساتھ اپنے اخری انٹرویو میں انہوں نے کہا اب وہ اس قوم کے لیے کچھ بھی نہیں کریں گے کیونکہ یہ قوم اور اس کے حکمران احسان فراموش ہیں۔ آخرمیں صدرمجلس جناب عبد الرشید ثاقب نے مقالات کی بے حد تعریف کی،انہوں نے کہا کہ قوموں کی طاقت اگرچہ اخلاق و کردارمیں پنہاں ہوتی ہے لیکن مادی وسائل اور دفاع بھی اپنی جگہ مسلم ہے،صدرمجلس نے کہاکہ برہمن نیآج تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجودکودل سے تسلیم نہیں کیاچنانچہ ضروری ہے کہ کم ازکم دفاعی صلاحیت بہرصورت متعین کی جائے تاکہ وطن عزیزکی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہ دیکھ سکے،صدراتی خطاب میں انہوں نے کہا کہ ایٹمی صلاحیت صرف پاکستانیوں کی نہیں بلکہ کل امت مسلمہ کی دعاؤں اورتمناؤں کانتیجہ ہیاورآج بجاطورپر پاکستان کی یہ ذمہ داری ہے
کہ وہ کل عالم کے مسلمانوں کادفاع کرے اورخاص طورپر کشمیراورفلسطین کے مسلمانوں کی کھل کرمددکی جائے اورانہیں استعمارکے مظالم سے نجات دلائی جائے۔ صدارتی خطاب کے بعد یہ بابرکت نشست اختتام پزیر ہوگئی۔ جمع و ترتیب ڈاکٹر ساجد خاکوانی صاحب اور قاری محمد شہزاد احمد یلدرم۔