105

قربا نی کا بکرا/ یاسر خان نیازی ایڈووکیٹ

سانحہ ماڈل ٹاؤن کے اندر ر قم کی جا نے والی ظلم و بربریت کی داستانیں ساڑھے چار ماہ گزرنے کے باوجود آج بھی ترو تازہ ہیں،مرنے والے مر گئے مگر مارنے والے اپنے اقتدار،طاقت اور سیاست کے بل بوتے آج بھی دند ناتے پھر رہے ہیں۔اس واقع میں ملوث افراد کو اگرچہ ایف آر کے اندر نامزد بھی کیا جا چکا،حکومت کی جا نب سے بنائے جا نے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹس بھی منظر عام پر آچکیں مگر اس کے باوجود ہمارا یہ نظام ان چند بڑی شخصیات اور بڑے ناموں کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکا،یہ لوگ آج بھی اسی طرح ملکی خدمت اور عوامی نمائندہ ہو نے کے دعویدار بنے بیٹھے ہیں۔ایف آر میں نامزد کئے جا نے کے بعد بھی ان پر پولیس کی جانب سے نہ تو کسی قسم کی گرفت کی جا سکی ہے اور نہ انھیں اس بات کا ڈر ہے کیونکہ چھیاسٹھ سالوں سے رائج یہ گھسا پٹا نظام ایسے لوگوں کے ہی تو تمام تر گناہوں،غلطیوں اور غلط کاموں پر پردہ ڈالنے کیلئے بنا یا گیا ہے،کتنے ظلم اور شرم کی بات ہے کہ ایک ایسا نظام کہ جس میں گلو بٹ جیسے بھڑکیں مارنے والوں کو تو پلک جھپکتے ہی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جائے اور جن کے ہاتھ سات معصوم لوگوں کے خون سے رنگین ہیں انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔اس ملک کی پولیس اپنے ہی آقاؤں اور سرکار کے خلاف کوئی بھی قانونی قدم اٹھا نے کیلئے تیار نہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر وزیر اعظم ،وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت جن اشخاص کو نامزد کیا گیا ہے ،کیا ان شخصیات کے خلاف اس ملک کا قانون حرکت میں آسکتا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ نہیں۔سانحہ ماڈل ٹاؤن میں گاڑیوں کے شیشے توڑنے کی سزا تو گیارہ سال ہے اور اس پر کس سرعت کے ساتھ عملدر آمد کر کے ذمہ دار کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے جبکہ اس واقعہ کے دوران گلو بٹ کو اس کام پر شاباش دینے والے افسران جن کی ناک کے نیچے گلو بٹ جو کرتا رہا انھیں قانون کے کٹہرے میں کون لائے گا۔آج اس ملک میں تبدیلی کی جو لہر چلی ہے اس کا مقصد ہی یہی ہے کہ اس ملک کے عوام اب اس ملک میں گزشتہ چھیاسٹھ سال سے رائج طبقاتی تقسیم،کلاسز کے فرق اور طاقت ور اور محکوم کی بنیاد پر انصاف کے اس ظالمانہ نظام سے نجات چا ہتے ہیں۔عوام غربت،بیروزگاری،مہنگائی اور بھوک و افلاس جیسے حالات میں گذارہ کر سکتے ہیں مگر ظلم کے نظام کے نیچے وہ کبھی سروائیو نہیں کر سکتے۔اس ملک کے کسی غریب مرغی چور کو تو اس ملک کی پولیس سو پردوں میں چھپا ہو نے کے باوجود نکال باہر کرتی ہے مگر اسے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں سات افراد کے خون سے ہاتھ رنگنے والے نظر نہیں آتے،یہ کیسا نظام ہے جہاں معصوم لوگوں کو دن دیہاڑے لاہور کی سڑکوں پر گولیوں سے چھلنی کر دیا جائے،اور پھر اس کے ذمہ داران کا تعین بھی ہو جائے مگر پھر بھی ان با اثر حکومتی شخصیات کے خلاف اس ملک کا قانون حرکت میں نہ آسکے تو پھر ایسے نظام کا کیا فائدہ۔یہ لوگ جو خود حکومتی عہدوں پر براجمان دن رات عوام کو سستا انصاف ان کی دہلیز پر پہنچا نے کے بڑے بڑے دعوے کرتے نظر آتے ہیں ان کی بات پر کون کیونکر یقین کرے گا،کیا اس سے اس ملک کے عام آدمی کے اندر عدم تحفظ اور اس ملک کے قانون اور انصاف کے تقدس کو یقینی بنا نے والے اداروں سے اعتبار اٹھ نہیں جائے گا۔کیوں اس ملک کا قانون اس ملک کے بااثر اورطاقت ور کے خلاف خاموش ہو جاتا ہے،یہ کب تک چلتا رہے گا،کیا ہم ایسے ظالمانہ نظام کے ساتھ سر وائیو کر سکتے ہیں جہاں پولیس کا ادارہ حکمرانوں کی لونڈی کا کردار ادا کر رہا ہو،جہاں غریب انصاف کیلئے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہو،جو اس وجہ سے تھانیدار کے پاس اپنی شکایت لیکر نہ جا سکتا ہو کہ اس کے پاس کسی سیاسی کی سفارش نہ ہو،جسے اپنی عزت و تکریم تھا نے میں بھی غیر محفوظ نظر آرہی ہو،جہاں گلو بٹ جیسے کارندوں کے خلاف تو اس ملک کی پوری مشینری چندہ ماہ میں حرکت میں آجاتی ہو اور حکمران جنگل کے شیروں کی طرح تمام تر قواعدو ضوابط اور قانون و انصاف سے ماوراء ہو کر استثناء کے مزے لوٹ رہے ہوں۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں