columns 149

قراردادپاکستان 23مارچ 1940

25فروری 1940ء کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کو نسل کے اجلا س میں قائداعظم محمد علی جنا حؒ نے سیاسی صورتحال پر بات کر تے ہو ئے فرما یا کہ لو گ مجھ سے پو چھتے ہیں

کہ مسلم لیگ کا مطع نظر کیا ہے؟ قائداعظم نے فرما یا اگر آپ کو معلو م نہیں تو سن لیجئے معاملہ بالکل صاف ہے کہ بر طانیہ بھارت پر حکو مت کر نا چاہتاہے اور مسٹر گا ندھی اور کانگریس ہندوستان اور مسلما ن دونو ں پر حکو مت کر نے کے خو اہا ں ہیں جبکہ ہمارا مقصد یہ ہے

کہ بر طا نیہ اور مسٹر گاندھی میں سے کسی کو بھی مسلما نو ں پر حکو مت نہ کر نے دیں گے۔ ہم مکمل آزادی چاہتے ہیں۔ پا کستان کے قیام کا مطا لبہ اور مسلم لیگ کے سالا نہ اجلاس کے لئے دسمبر 1939ء طے کیا گیا تھا تا ہم بعد میں 23,22اور 24ما رچ 1940ئکی تاریخ اورمقام منٹو پارک لا ہو رطے ہو ا 19مارچ کو خا کسار تحریک کے جھتے پر پو لیس کے تشدد کے با عث اور خا کساروں کی شہا دتو ں کی وجہ سے یہ اجلا س منسو خ کر نے پر بھی غور ہو ا مگر حالا ت کی نزاکت کو
سامنے رکھتے ہو ئے

اور وقت کے تقاضو ں کے با عث انہی تا ریخو ں پرہر صو رت اجلاس کر نے کا فیصلہ ہو ا۔21ما رچ کو قائد اعظم لا ہو ر آگئے تھے اور اسی تا ریخ کو ہی مسلم لیگ کو نسل کا اجلا س ہو ا اور22مارچ کو کھلا اجلاس ہو اقائداعظم نے کچھ دیر اردو اور پھر انگریزی میں تقریر کی اور انہو ں نے دو قو می نظر یے کے با رے میں اپنی رائے کا اظہا ر کرتے ہو ئے کہا کہ لا لہ را جیت رائے نے 1924ء میں سی آر داس کو تحر یر کیاتھا

کہ مسلمان اور ہندو الگ الگ قو میں ہیں اور ا ن کو ایک دوسرے میں مد غم کر کے ایک قو م بنا نا ممکن نہیں۔ قائداعظم نے ملک بر کت علی کے جملہ معتر ضہ پرکہا کہ کو ئی ہندونیشنلسٹ نہیں ہو ا ہر ہندو اول و آخرہند وہی ہو تا ہے۔ 22مارچ 1940ء کو مسلم لیگ کے اجلا س میں لیا قت علی خان نے یہ قرارداد پیش کی کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو نسل اور ورکنگ کمیٹی نے 27اگست،18,17استمبر،22اکتو بر1939ء اور 3فروری 1938کو آئینی امور کے با رے میں جو قرار داد منظو ر کی تھی

آل انڈیا ایکٹ 1935ء میں جس فیڈریشن کی اسکیم پیش کی گئی تھی وہ مو جو دہ حالا ت میں قطعی بے سو د اور نا قا بل عمل ہو نے کے با عث مسلما نا ن ہند کے کئے بالکل نا قابل عمل ہے۔یہ اجلا س مزید پر زور اعلا ن کر تا ہے کہ وہ اعلا ن تسلی بخش ہے جو ملک معظم کی حکو مت کی طرف سے وائسر ائے نے 18اکتوبر 1939ء کو کیا تھا اور جس میں اعلان کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی مختلف جما عتو ں فرقو ں اور مفا دات سے مشورے کے بعد گو رنمنٹ آف انڈیا ایکٹ پر غو ر کیا جا ئے گا اور مسلم لیگ اس وقت تک مطمئن نہیں ہو گی

جب تک قیا م دستو ری کے خاکے پر ازسر نو غو ر نہیں کیا جاتا‘مسلما ن کسی دستو ری خاکے کو ان کی مر ضی کے بغیر مر تب کیا جا ئے گا منظو رنہیں کر یں گے۔ قرار دیاجا تا ہے کہ آ ل انڈیامسلم لیگ کے اس اجلا س کی یہ سو چی سمجھی رائے ہے کہ مسلما نان ہندصرف اس دستو ری خاکے کو قبو ل کر یں گے

جوذیل کے بنیادی اصولو ں پر مر تب ہو گا۔جغرافیا ئی طو ر پر متعلقہ وحد تو ں کے منطقے اس طرح و ضع کئے جا ئیں کہ فوری ردو بدل کے ساتھ جن خطوں میں مسلما نوں کی عدد ی اکثریت ہے مثلاً ہندوستان کے شمال مغر بی اور مشرقی زون ان کو ملا کر خو د مختار مملکتیں بنا دی جا ئیں

جن کے تر کیبی یو نٹ آزاد اور خو دمختا ر ہو ں‘ و حد تو ں اور منطقوں میں رہنے والی اقلیتو ں کے مذہبی‘ثقافتی‘ اقتصادی‘ سیا سی اور انتظا می حقو ق اور دیگر مفادا ت کے لئے ان اقلیتو ں کے مشو رے سے دستو ر میں مناسب قانو ن اور پر زور تحفظا ت رکھے جا ئیں بعض اکا برین کا خیا ل تھا

کہ صو بو ں کے نام قرار داد میں واضح ہو ں مگر لیا قت علی خان نے کہا کہ مصلحت کے تحت نا م نہ دیں۔23ما رچ 1940کو مو لو ی فضل الحق نے ایک مدلل تقریر کی اور اُردو میں قرار داد لا ہو ر پیش کی گئی

یہ قرار داد قائداعظم محمدعلی جنا ح،نو اب اسماعیل،سر سکندر حیات اور ملک بر کت علی نے تیا ر کی تھی قرار داد لا ہو ر کی تا ئید پنجا ب سے مو لا نا ظفر علی خا ن سر حد سے اورنگزیب خان،سندھ سے سر عبداللہ ہارون، مدراس سے عبداللہ الحمید خان،سی پی سے عبدالرؤف شاہ ممبئی سے آ ئی آئی چند ریگر اور بہا ر سے نو اب اسماعیل نے کی تھی قرا ر داد لا ہو ر میں شمال مغرب اور شما ل مشر ق کے مسلم اکثریتی علا قو ں پر مشتمل ریا ستو ں کا ذکر تھا

اور یہ قرار داد 23ما رچ کو پیش ہو ئی اور 24مارچ کو منظورکی گئی اور ہم یو م پاکستان 23ما رچ کو کیو ں منا تے ہیں یہ ایک سیو ہن ہے حالانکہ یو م پاکستان قرار داد کی منظوری کے ذریعے 24ما رچ کو منا یا جا نا چا ہیے

اب سوال یہ پیداہو تا ہے کہ جن مقاصد کے لئے الگ وطن کا مطا لبہ کیا اور تسلیم کروایا گیا اُس کا نصب العین کیا تھا؟ اور نصب العین کسی حد تک پورا ہو اور یہ نصب العین کس قدر پا ما ل کیا گیا؟

آئین میں دی گئی تما م ضما نتیں،حقو ق صرف تحریر کر دہ ہی رہ گئے جمہوری انداز سے بنا یا گیا ملک جمہو ریت کے لئے تڑپ رہا ہے انسا نی حقو ق صرف اُس طاقتورکو حا صل ہیں جو ریا ست کو گالی دے سکتا ہو قانو ن شکنی کر سکتا ہو آئین کی بے حر متی کر تا ہو اور پارلیمنٹ کو بے تو قیر کر کے ملک میں امن و امان کا مسئلہ پیداکر سکتا

ہو یہ صرف فر د ہی نہیں گر وہ بھی کر سکتا ہے اور کر تے بھی رہتے ہیں آزادی انگریز سے ملی تھی اور ہندو سے بھی آزاد ی حا صل کر لی مگر انگریز کے غلا م یا اس کی خو اہشات کی تکمیل کر نے والو ں کے پا س اب بھی پچیس کروڑ عوام آزادی کے طالب ہیں نہ ہی ہم آزاد ہیں اور نہ ہی ہما ر ا سما ج آزاد ہے

ہما ری معیشت ہما ری تعلیم اور ہما را اخلاق سب ہی غلام ہیں۔ ہم اسلا می روایات آزادی چاہیے آزادی اور صرف آزادی مگر آزادی تو قو مو ں کو حاصل ہو تی ہے کیا ہم ایک قو م بن چکے ہیں یا ابھی اس کے مراحل سے گزرنا با قی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم ایک ہجوم ہیں

بے سمت ہجوم جس کو اپنی سمت کا کو ئی اندازہ نہیں مقصد حیا ت اگر معلوم ہے تو وہ ریا ستی راز ہے اور ریاستی راز صرف چند لو گ ہی جان سکتے ہیں قو م کا اس سے کو ئی تعلق نہیں ہے

 اگر مستقبل کی طرف نظر ڈالی جا ئے تو خوشحالی تعلیم دانشمندی دوراند یشی تحمل بر دبا ری کہیں نظر نہیں آتی‘ قومی لیڈر حادثات بنا تے ہیں

حادثہ تو بے اثر رہا مگر بنگلہ دیش میں کچھ اثر نظر آتا ہے لیکن لیڈرایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو قا ئداعظم کے کھو ٹے پیسو ں کے برابر ہو یہ واقع ذوالفقار علی بھٹو نو از شریف اور عمران خان کو حاصل ہو اتھا مگر ہرکسی نے قومی مفادات کے بجا ئے اپنی شخصیت کو بڑا اور اونچا کر نے کی

کو شش میں خو د کو بھی بر با د کر دیا دنیا ہمیں مشکلا ت پیدا کر نے والا ایک ملک ہی سمجھتی اور دیکھتی ہے ہر کو ئی ہمیں مو رود الزام ٹھہراتا ہے کم و بیش ایک لا کھ جا نیں نثار کر کے بھی ہم امن پسند ملک قرا ر نہیں پا سکے ہم اپنی غلطیوں کا الزام دوسرو ں پر ڈالتے ہیں خو شحال تعلیم یا فتہ اسلا می فلاحی اور جمہوری پاکستان کا خو اب ابھی بھی خواب ہی ہے ہما رے نصف بچے سکو ل جا تے ہی نہیں اور پھر جو جا تے ہیں

ان کا نصف سکینڈری درجے تک ہی پڑھتا ہے صرف پا نچ فیصد اعلی تعلیم حاصل کر تے ہیں ایسے میں ہم کیسے آزادی حا صل کر سکتے ہیں ہماری معیشت ہماری سیاست حتیٰ کہ ہما رے خارجہ تعلقات بھی دوسروں کے رحم و کر م پر ہیں ہم کس کس چیزکا رونا روئیں دالیں آسٹریلیا سے منگو ائی جا تی ہیں

گندم اور تیل بھی با ہر سے درآمد کر تے ہیں اور اپنا گھر چلا نے کے کئے ترقی لینے کے علا و ہ ہم کسی کام کو اپنی ترقی اور خو شحالی نہیں ما نتے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم من حیث القو م اپنی نئی منزل کا تعین کر دہ اور اپنے انداز سے ان تما م مسائل کو حل کر کے دکھا ئیں ہم نعروں کے فریب میں جلد یا بدیر تبا ہ و بر با د ہو نے کیلئے تیا ر کھڑے ہیں ہر با ت میں جھو ٹ‘فریب‘نا اہلی‘کا ہلی‘ اقربا پروری اور رشوت و کر پشن قوم کی تباہی کی نشاندہی ہو تی ہے

جس آزادی کی ہمیں ضرو رت ہے وہ ہم نے اپنے آپ سے اپنے خیا لی فریب سے سراب سے حاصل کر نی ہے اگر ہم اپنی ذات اور ذاتی فا ئدے سے اوپر ہو کر دیکھیں گے تو پھر دوسروں کی مثال دینے کی ضرورت نہ ہو گی قرآن مجید قو موں کی تبا ہی کے با رے میں جو ارشاد فرماتا ہے ہم ان نشانیو ں کے قریب تر ہیں۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں