ہماری روزمرہ زندگی میں قدرت کا لفظ اکثر استعمال ہوتا ہے۔ قطع نظر اس کے حقیقی مفہوم سے اس کا ظاہری اور عمومی معنیٰ کسی ایسے امر کی طرف اشارہ کرتاہے جو انسان کے بس سے باہر ہو۔قدرتی آفت سے مراد بھی ایسی مصیبت کے ہیں جو اچانک وارد ہو اور انسان اس سے نمٹنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔درحقیقت قدرت کا تعلق خداوند قدوس کی اس لازوال قوت امر سے ہے جسے کولی ٹال نہیں سکتا۔انسان کا مقدر، اس کی قسمت، نصیب اور حیات وممات کے فیصلے اسی قدرت کے دایرہ اختیار میں ہیں۔مگر یہاں کچھ سوالات ضرور جنم لیتے ہیں، کیا قدرتی امور پر حضرت انسان کو جزوی اختیا ر حاصل ہو سکتا ہے؟ اور کیا قدرتی آفات فطرت کا خاصہ ہیں ان کے وقوع کا تعلق کسی واقعے یا امر سے نہیں؟درحقیقت قدرتی امور کی وقوع پذیری اللہ کے امر اور اس کی تدبیر سے متعلق ہے تاہم جہاں تک قدرتی آفات کا تعلق ہے تو یہ انسان کے اعمال اور افعال سے ہے۔اس امر کی وضاحت کتاب الٰہی میں مختلف مقامات پر کی گئ ہے۔گزشتہ اقوام کی طرف انبیا کرام مبعوث ہوے اللہ کے احکامات کو ان تک پہنچایا گیا، دعوت عمل دی گئ مگر نافرمانی اختیار کرنے والی اقوام کو قدرتی آفات کے ذریعے یوں صفہ ہستی سے مٹایا گیا کہ آج صرف ان کے بچے ہوے کھنڈرات اہل دنیا کے لیے مقام عبرت بنا دیے گیے مگر ان کی نسل میں کولی باقی نہ رہا۔کہیں قوم عاد و ثمود کی قوت جسمانی کے باوصف عذاب الٰہی میں ان کی تباہ کاری کا ذکر ہے کہیں قارون و فرعون کی حکومت و سلطنت اور مال و دولت کے باوجود دریاے نیل میں غرق ہوتے بے بسی کی منظر کشی ملتی ہے۔کہیں قوم نوح کو سیلاب سے ڈبونے کا تذکرہ ہے تو کہیں کسی پر پتھروں کی بارش کا ذکر ہے۔ الغرض قدرتی آفات و بلیات امر خداوندی سے اس وقت ورطہ نزول اختیار کرتی ہیں جب اقوام عالم اپنے خالق و مالک کو بھول کر اسی کی زمین میں فنتہ وفساد کا بازار گرم کردیں اور حدود الٰہی سے تجاوز کرجاییں ۔امریکہ کی ریاستوں میں آنے والے طوفان ہوں، جاپان کے زلزلے ہوںیا چین اور پاکستان کے سیلاب اسی نافرمانی کا نتیجہ ہیں۔دوسری جانب اس حقیقت سے انحراف بھی ممکن نہیں کہ کاینات مادی میں حادثات کا رونما ہونا تخریبی نہیں بلکہ تعمیری عمل ہے۔ہماری زمین ستاروں ،سیاروں اور فلک کی وسعتوں کا وجود بھی ایک حادثے کے مرہون منت ہے، آج بھی سورج سے جدا ہونے والے سیارگان فلک اسی کے گرد محو رقص ہیں اور وقوع قیامت تک رہیں گے۔مختلف براعظموں کی تخلیق و ترتیب، ارضی نشیب وفراز اور بدلتی فضاییں انہی حوادث کے باعث ہیں۔تدبیر الٰہیہ یوں ہی کلمات ربانیین کی پاسداری کا فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔انسان نے ساینسی ترقی کی بدولت مادی کاینات کے رازوں کی پہچان حاصل کرکے ان سے بخوبی فایدہ اٹھایا اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلیے اسباب تیار کرنا شروع کیے،مثلاً زلزلے کی پیشگی اطلاع،آتش فشاں کی کیفیت، بارشوں کی پیشین گولی اور سیلابی کیفیات کی بروقت اطلاعات کے نظام متعارف ہوے۔چنانچہ ان آلات اور ڈیوایسز کے ذریعے فطرت اور قدرت کی منشا کو جانا گیاتاکہ حوادث و آفات کے وقوع پذیر ہونے کی صورت جانی مالی نقصان کم سے کم ہو سکے۔ساینس کے ان محیر العقول کارہاے نمایاں کے باوجود قدرت الٰہیہ کی گرفت اور تدبیر کا احاطہ حضرت انسان کے بس سے باہر ہے۔قوم عاد و ثمو د کے طویل القامت جوان جو اپنے زور بازو سے تناور درختوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت کے حامل تھے قدرت کے انتقام کے آگے بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔رواں ماہ مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہونے کے ساتھ ہی ہر سال کی طرح میرے وطن کے طول وعرض میں پھیلے دریاوں میں طغیانی اور سیلابی ریلوں سے ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری اجتماعی خطاییں اور گناہ ایک طرف پانی کی قلت کے باعث بلوچستان اور سندھ کے صحراوں میں زندگیاں ختم ہونیکاباعث بن رہے تھے تو دوسری جانب نشیبی علاقے اور آبادیاں سیلاب میں ڈوب رہے ہیں چنانچہ پاکستان کی کل آبادی میں سے کچھ اس طرح کے عذاب میں مبتلا ہیں،مگر ان زلزلوں، سیلابوں اور قدرتی آفتوں کے علاوہ ایک دوسری نوعیت کے عذاب بھی ہیں جن سے ملک کا ہر فرد دوچار ہے، مہنگالی، بے روزگاری،تعلیم اور صحت کی سہولیات کا فقدان، ناقص اشیاے خوردونوش، ملاوٹ، رشوت ستانی، فراڈ،جعل سازی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ،قبضہ مافیا، بھتہ خوری اوران تمام سے بڑھ کر نا اہل حکمران اور ظالم عدلیہ ایسے عذاب، آفات اور بلیات ہیں جو قدرتی آفات سے کہیں بڑھ کر تباہ کن ہیں۔ان آفات کے باعث زندہ رہنے والے موت کے طلبگار بن جاتے ہیں۔ ذہنی و نفسیاتی الجنہیں اور بے چینی کی فضا معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ہنر مندی ،علم، سچالی اور دیانت جیسے اوصاف رخصت ہو جاتے ہیں۔ہمیں ان آفات و بلیات سے بچنے کیلیے تعلیم ، شعور اور جد و جہدکے ساتھ ساتھ اپنے گناہوں پر نادم اور شرمندہ ہو کر اجتماعی توبہ کرنی ہوگی تاکہ اللہ کریم کی ذات جو ہر شے پر قدرت رکھے ہوےہے ہمیں ان قدرتی آفتوں کے ساتھ ساتھ موخر الذکر آفات سے بھی محفوظ رکھے۔{jcomments on}
121