چند دن قبل ایک ویڈیو کلپ دیکھنے اور سننے کو ملا یہ کسی عام آدمی کا نہ تھا بلکہ ہماری صحافت کے منجھے ہوئے بزرگ صحافی ادیب دانشور جناب مجیب الرحمن شامی صاحب کا تھا جس میں وہ اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں گفتگو فرما رہے تھے اسی بحر میں انہوں نے قادیانیوں کے حوالے سے شکوہ کرتے ہوئے بات کی کہ ہمارے ہاں ایک ایسی اقلیت بھی ہے جس کو قطعاً حقوق حاصل نہیں ہیں انہیں آزادانہ طور پر عبادت بھی نہیں کرنے دی جاتی.
انہیں قربانی نہیں کرنے دی جاتی انہیں نماز نہیں پڑھنے دی جاتی ان کو عبادت گاہ نہیں بنانے دی جاتیں پاکستان میں کہیں کا بھی رہنے والا ہو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اس کی جان مال عزت آبرو کی ذمدار ریاست ہے اور وہ ان کو شہری حقوق مہیا کرے چند علمائے کرام کے نام لے کر کہا کہ وہ مل بیٹھ کر اس معاملے کو حل کریں
(ان کی اس بات سے تاثر ملا کہ شاید وہ قادیانیوں کی حمایت کر رہے ہیں جس کی انہوں نے بعد میں بڑے واشگاف الفاظ میں وضاحت کر دی کہ میں تو خود اس تحریک ختم نبوت کا حصہ رہا ہوں تو اب میں ایسی بات کیسے کہہ سکتا ہوں) ان کی وضاحت تو آگئی لیکن شاید ان کی بات قادیاینوں کے ذہنوں کو پراگندہ کر چکی ہو اس لیے سوچا کہ اس موضوع پر کچھ تحریر کر دوں اس مسئلے کو سمجھانے کے لیے ایک مثال پیش خدمت ہے
آپ سب با خوبی آگاہ ہیں کہ شامی صاحب پاکستان کے معروف ٹی وی چینل دنیا نیوز پر نقطہ نظر کے نام سے ایک کرنٹ افیئرز کا پروگرام کرتے ہیں اور روزنامہ دنیا میں کالم بھی اسی نام سے لکھتے ہیں تو شامی صاحب کو ہی ایک الزامی جواب ہے کہ وہ دنیا نیوز پر ایک عرصہ سے نقطہ نظر کے نام سے ایک ٹاک شو کر رہے ہیں اب کوئی بھی دوسرا شخص اس نام سے نہ تو ٹاک شو کر سکتا ہے اور نہ ہی کوئی کالم لکھ سکتا ہے
اور نہ ہی کوئی شخص دنیا نیوز کے نام سے ٹی وی چینل بن سکتا ہے بالفرض محال مان لیا کہ ایک سر پھرے شخص نے میل ملاپ کر کے دنیا نیوز کے ہی نام سے ایک ٹی وی چینل کھولنے کا لائسنس لے لیا اور اس کی نشریات شروع کر دیں اور اس چینل پر ایک ٹاک شو بھی شروع کر دیا جس کا نام نقطہ نظر ہے تو صبح ہوتے ہی بالیقین میاں عامر صاحب جو دنیا نیوز کے مالک ہیں اور آپ مجیب الرحمن شامی صاحب اسی دن عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے آپ دونوں حضرات کی عدالت عالیہ سے اپیل ہو گی اس نئے ٹی وی چینل اور اس پر چلنے والے پروگرام کو بند کیا جائے
کیونکہ دنیا نیوز کے نام سے میرا چینل پہلے ہی چل رہا ہے اس نام کے تمام حقوق میری ملکیت ہیں اب کوئی دوسرا شخص اس نام سے اخبار اور ٹی وی چینل نہیں چلا سکتا اس لیے عدالت عالیہ اس شخص کو دنیا نیوز کا نام استعمال کرنے سے روکے اور ساتھ ہی ساتھ مجیب الرحمن شامی صاحب کا بھی دعوی یہی ہوگا کہ جناب میں عرصہ دراز سے نقطہ نظر کے نام سے ٹاک شو اور کالم لکھ رہا ہوں اور یہی میری پہچان ہے اب یہ شخص اس ٹی وی چینل پر بیٹھ کر میرے شو کا نام استعمال کر رہا ہے جس کی وجہ سے میری شہرت سخت متاثر ہو رہی ہے برائے مہربانی اس کو یہ نام استعمال کرنے سے روکا جائے تو عدالت عالیہ یقینا اسی دن سٹے ارڈر جاری کر دے گی
بلکل اسی طرح الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اسلام ہمارا دین ہے اس دین مبین کے کچھ شعائر ہیں مثلا کلمہ پڑھنا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ وحی الٰہی پر مشتمل مذہبی کتاب قرآن مجید اللہ تعالی نے ہم مسلمانوں پر دن میں پانچ مرتبہ اپنی عبادت کو ہم پر فرض کیا ہے جس کو ہم نماز کہتے ہیں جہاں پر ہم اللہ کی عبادت کرتے ہیں اس کو مسجد کہتے ہیں اور مسجد کی ہیت بھی کچھ
اس طرح ہوتی ہے کہ اس کی سامنے والی دیوار کی چھت پر ایک یا دو مینار بنائے جاتے ہیں جہاں پر بھی ایسی عبادت گاہ یا عمارت نظر آئے گی وہ اس چیز کی نشانی ہے کہ یہ مسلمانوں کی عبادت گاہ مسجد ہے ماہ رمضان کے روزے حج بیت اللہ اور زکوۃ یہ مسلمانوں کے شعائر ہیں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ان دو شہروں کی نسبت خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ ہے
اب اگر کوئی شخص اپنی پہچان یہ کرواتا ہے کہ میں احمدی یا قادیانی ہوں لیکن قرآن کو اپنی مذہبی کتاب کہتا ہے اپنی عبادت کو نماز روزہ حج زکوۃ کے ناموں سے منسوب کرتا ہے اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہتا ہے اور اپنی عبادت گاہ کو اسی ہیت میں بنواتا ہے جیسے مسلمان بناتے ہیں تو کیا مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں پہنچتا کہ وہ ایسے شخص کو روکیں اور پوچھیں جناب جن چیزوں کو آپ اپنے عقائد اور عبادت عبادت گاہ کہ رہے ہیں یہ چیزیں تو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں جن کا لیبل جن کی پہچان مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے 1400 سال سے مسلمان تواتر کے ساتھ ان کو استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں
آپ کو کس نے اجازت دی ہے کہ ان شعائر کو اپنے دین کا حصہ ٹھہرائیں لیکن وہ بضد ہے ان شعائر کو استعمال کرنے کا تو کیا مسلمانوں کے پاس اتنا بھی حق نہیں ہے کہ وہ اسے روک سکیں کہ تم کیوں ہماری عبادت و عبادت گاہ ہماری مذہبی کتاب کا نام استعمال کرتے ہو اگر ایک ٹی وی چینل کا نام یا اس پر چلنے والے پروگرام کا نام استعمال کرنے سے آپ کی ساکھ خراب ہوتی ہے
تو کیا اس طرح مسلمانوں کی ساکھ خراب نہیں ہوتی تو اگر بالفرض محال آپ کی بات مان کر ان کو آزادانہ طور پر ان شعائر کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی جاے تو کون یہ تفریق کرے گا کہ ان میں مسلمان کون ہیں اور قادیانی کون یہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں دوسری بات ہمارا ملکی قانون بھی ہمیں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ ہم ان کو اس سے روکیں تعزیرات پاکستان 298 بی اور سی اس کی اجازت دی گئی ہے اور وہ کچھ یوں ہے
(۱) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جوخود کو احمد ی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے (الف) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ یا صحابی کے علاوہ کسی شخص کوامیرالمؤمنین خلیفتہ المسلمین صحابی یا رضی اللہ عنہ کے طور پر منسوب کرے یامخاطب کرے(ب) حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرّہ کے علاوہ کسی ذات کو اُم المؤمنین کے طور پر منسوب کرے یا مخاطب کرے (ج)حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان (اہلِ بیت) کے کسی فرد کے علاوہ کسی شخص کو اہلِ بیت کے طورپر منسوب کرے یا مخاطب کرے (د) اپنی عبادت گاہ کو مسجد کے طورپر منسوب کرے یاموسوم کرے یا پکارے تو اُسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال تک ہو سکتی ہے اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا
(۲) قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ (جو خود کو احمدی یا کسی دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں) کا کوئی شخص جو الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا مرئی نقوش کے ذریعے اپنے مذہب میں عبادت کے لیے بلانے کے طریقے یاصورت کو اذان کے طورپر منسوب کرے یا اس طرح اذان دے جس طرح مسلمان دیتے ہیں تو اسے کسی ایک قسم کی سزائے قید اتنی مدت کے لیے دی جائے گی جو تین سال ہوسکتی ہے اور وہ جرمانے کا مستوجب(حقدار) بھی ہوگا آخری بات قادیانی پہلے اپنے آپ کو اقلیت مانیں اور ثابت بھی کریں اور باقی اقلیتوں کی طرح اپنا جُداگانہ تشخص قائم کریں پھر اگر مسلمان ان کے حقوق غصب کریں تو مسلمان مجرم۔۔