فیل عربی لغت میں ہاتھی کواور ابابیل چھوٹے سے پرندے کوکہتے ہیں اللہ رب العزت نے حضور نبی اکرم شفیع اعظم ﷺکی آمدسے قبل فیل اور ابابیل کی صورت میں حق و باطل کاایک زبردست معرکہ کروایاپھراس زبردست قدرتی چشم دید مظاہرہ میں قدآور‘فربہ جسم ہاتھی کو معمولی جسم والے پرندے،نہایت ہی کمزور اور بہت ہی چھوٹے ابابیل سے نیست ونابودکرکہ اپنی قدرت وطاقت کاچشم فلک ناقابل یقین احساس دلایا یوں توہمارے معاشر ے میں ہاتھی کوایک طاقتور،مضبوط،قدآور،فربہ جسم،اور بہت زیادہ وزن کامالک تصورکیاجاتاہے اگرچہ ہاتھی کسی کو بھی کچلنے مسلنے اور پاؤں تلے روندنے کی صلاحیت وطاقت رکھتا ہے لیکن جب اللہ کی نافرمانی میں اس کااستعمال ہواتواللہ نے چھوٹے سے پرندے سے بھی اسکو نشان عبرت بناکربتادیااللہ ہرچیز پرقادر ہے چنانچہ اس کاتذکرہ اللہ رب العزت نے قرآن مجیدکی سورۃ الفیل(30پارہ) میں تفصیل سے ذکرکیا ہے نبی اکرم شفیع اعظم ﷺ کی آمد سے قبل یمن میں ابرھہ نامی شخص برسراقتدارتھا وہ ظالم وجابرہونے کیساتھ ساتھ سنگ دل بھی تھا اس نے یمن کے دارالحکومت صنعا میں اپنے دورحکومت میں ایک عالیشان گرجا تعمیرکروایا لوگوں سے بلامعاوضہ محنت و مشقت،مزدوری وغیرہ کرواتا جومفت میں مزدوروی سے انکارکرتااس کوقید و بند،تشدد کی صعوبتیں برداشت کرناپڑتیں،اس گرجاکی اصل وجہ یہ تھی کہ ابرھہ چاہتا تھاکہ لوگ حج کرنے کہ لئے مکہ مکرمہ جانے کی بجائے یمن میں اسکے ہاں آئیں وہ سب کی توجہ،شھرت اور،دولت حاصل کرنے کاخواھش مند تھا تاکہ وہ لوگوں کی توجہ کے ساتھ ساتھ مال و دولت بھی سمیٹ سکے جب گرجا تعمیر کے آخری مراحل میں داخل ھوا،ابرھہ کھل کرسامنے آیا اور اس کے ناپاک عزائم کا اہل مکہ کو علم ہوا تووہ سخت پریشان ہوئے ابرھہ سے مقابلہ کرنے کی طاقت میں تو تھے نہی کیونکہ ابرھہ زبردست فوجی قوت کے ساتھ ساتھ جنگجوہاتھیوں کا لشکربھی رکھتاتھا،ایک روایت کے مطابق ابرھہ کے غم وغصہ کی بنیادی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اہل مکہ میں سے کسی نے موقع پاکر بیت اللہ کے مقابل میں ابرھہ کے بنائے گئے گرجا کے اندر نجاست پھیلادی تھی جسکو ابرھہ برداشت نہ کرسکااور وہ اسکابدلہ لینے اور نشان عبرت بنانے کے ارادہ سے نعوذباللہ بیت اللہ کومنہدم کرنے کے ارادہ سے چل نکلا اور یوں خودہی فوجی قوت اور،ہاتھی لشکرسمیت اللہ کہ عذاب کی زدمیں آکرعبرت کانشانہ بن کردنیا وآخرت میں ذلیل و رسواء ہونے کے ساتھ ساتھ تباہ وبرباد ہوا،ابرھہ جب فوج اور ہاتھی لشکرسمیت بیت اللہ کی جانب بڑھنے لگا توسرزمین حجاز میں بسنے والے عرب قبائل کے اندر بے چینی پھیلنا شروع ھوگئی انھوں نے ابرھہ کواپنے ارادہ سے بازآنے کی صورت میں ایک بہت بڑی دولت کی پیشکش بھی کی جس کووہ ٹھکراکرحملہ کی نیت پربضدرہا اسی لئے اس نے اپناقاصد حبشی اسود نامی کو حالات و واقعات کاجائزہ لینے کہ لئے بھیجا اس نے مکہ کے قریب قریش کے چرنے والے مویشیوں کوقبضہ میں لے لیا جس میں 200 اونٹ رحمت العالمینﷺکے جد امجد،جناب حضرت عبد المطلب کے بھی تھے جن کو ہانک کر ابرھہ کہ پاس لے گیا سرداران قریش اکھٹے ہوئے آپس میں صلاح مشورہ کرنے لگے کے اس مصیبت سے نجات کاکوئی حل تلاش کیاجائے ابھی وہ اس مشورہ میں مصروف عمل تھے کے ابرھہ کا قاصد وہاں آں پہنچا وہ کہنے لگا کہ ہمارا مقصد آپ لوگوں کو نقصان پہنچانے کا نہیں اور نہ ہی آپ سے جنگ کرنے کاکوئی ارادہ ہے آپ میں سے سردار مکہ کون
ھے ابرھہ نے آپ کے سردارکوطلب کیا ہے تو لوگوں نے جناب عبد المطلب کی طرف اشارہ کیاتوجناب حضرت عبد المطلب اسکے ساتھ چل پڑے حضرت عبدالمطلب،قدآور،وجیہ اورباوقارشخصیت کے مالک تھے ابرھہ انکو دیکھتے ہی بہت احترام سے پیش آیا جب ابرھہ نے جناب عبدالمطلب سے بات چیت شروع کی اوراپنے آنے کا مقصد بیان کیا توجناب نے کہا کہ تمہارے لوگ ہمارے مال مویشی پکڑکرلے آئیں ہیں انھیں چھوڑ دوتو ابرھہ کہنے لگا میں توآپ کو بہت عقلمند سمجھتا تھا کہ آپ کہیں گے ہمارے کعبہ پرحملہ نہ کرو،تو جناب عبدالمطلب نے جواب دیا کہ مال مویشی میرے ہیں مجھے انکی فکرہے ا ور کعبہ اللہ کاگھر ہے وہ اسکی خود حفاظت کرلے گا مجھے فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں برھہ کہنے لگا نعوذباللہ اب اس کعبہ کو مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا جناب عبد المطلب نے اپنے اونٹ لئے اورچل پڑے ایک روایت میں آتا ہے آپ بیت اللہ میں جاکریہ دعامانگنے لگے اے اللہ جب ہم اپنے مال کی حفاظت کرسکتے ہیں توآپ اپنے گھرکی حفاظت کیوں نہیں اگرتو نہ چاہے توکوئی طاقت غالب نہیں آسکتی اگرتو ہی اپنے گھرکا تقدس خراب کرنے دے تو ہم کون ہیں تیری مرضی میں دخل دینے والے اسکے بعد اہل مکہ نے قریب پہاڑ اورگھاٹیوں میں پناہ لیے لی جب ابرھہ نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اپنے فوجی دستہ اور ہاتھی لشکر کے ساتھ آگے بڑھنے لگا تواس کا محمود نامی ہاتھی زمین پربیٹھ گیا بہت کوشش کہ باوجود نہ اٹھا اورنہ ہی آگے بڑھا اگر اس ہاتھی کا رخ یمن کی طرف کرتے تو وہ چل پڑتا مکہ کی طرف رخ کرتے تو وہ بیٹھ جاتا اس طاقت وغرورکے نشہ میں مست ابرھہ کی تباہی کا وقت قریب آگیا اللہ نے ابابیل نامی پرندوں کو حکم دیاوہ چھوٹے چھوٹے کنکر اپنے ننھے منھے پنجوں اورچونچ میں لئے غول درغول لشکرکے ا وپر پہنچ کربادلوں کی طرح چھاگئے انکے پنجوں سے نکلنے والے کنکرگولی سے زیادہ تیز،اور ہلاک کرنے کی صلاحیت رکھتے جس ہاتھی یا انسان کوپتھرلگتا وہ کٹ کٹ کرگرجاتااور فوراً ہلاک ہو جاتا ایک ہاتھی کنکرلگنے سے ہلاک ہوا جبکہ دوسرے سارے ہاتھی اس قہرخداوند کی زد میں آنے سے قبل ہی بھاگ کھڑے ہوئے کچھ لوگ کنکرلگنے سے موقع پرہلاک ہوگئے جبکہ کچھ راستہ میں ہلاک ہوگئے لیکن جوبھی اس لشکرکاحصہ بنا وہ عذاب الٰہی سے نہ بچ سکا جوبہا گنے میں کامیاب ہوئے وہ اندھے اوراپاہج ضرورہوئے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ہمشیرہ حضرت اسماء ؓ بیان کرتی ہیں کہ دو ہاتھی بانوں کو میں نے اپاھج بن کر مکہ مکرمہ میں بھیک مانگتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جبکہ ابرھہ کنکرلگنے سے زخمی ہوکر یمن کی طرف بھاگ کھڑا ہوا اس کولگنے والے کنکر نے جسم میں زہر بھردیا جس سے اس کاجسم سڑ،گل کر ایک ایک حصہ کرکے گرنے لگا اور یوں وہ تڑپ تڑپ کر مرگیا رب العالمین نے طاقت وقوت،غروروگھمنڈ میں آکر رب کی نافرمانی و مقابلہ کرنے والوں کو نشان عبرت بناکر تا قیامت مثال قائم کر دی کہ کائنات کامالک اگراپنے گھرکواور دین کو بچاناچاہے تووہ انسانوں کا محتاج نہیں وہ پرندوں سے بھی کام لے سکتا ہے اگرہ چاہے تو کن کہہ کرکائنات میں کسی کو بھی ختم کرسکتا ہے لیکن اس نے ناقابل یقین،اورناممکن کو ممکن کردکھایا بے شک اللہ قادر،خالق ومالک ہے اور وہ ہرچیزپرقدرت رکھتا ہے۔
109