معمول کے مطابق میں ایک رات نائٹ کلب سے نکلا اور مدہوشی کے عالم میں اپنی گاڑی کی سیٹ پیچھے کر کے سکون سے لیٹ گیا۔ گاڑی میں لگے مدھم میوزک کی آواز میرے سرور کو بڑھا رہی تھی۔ سیاہ یونیفارم میں اسلحہ تھامے میرے سرکاری گارڈز چوکنے کھڑے شیشے میں نظر آئے تو میں اپنے غرور کی انتہا پر تھا۔
میں نے اپنی آنکھیں موند لیں اور لطف اندوز ہونے لگا۔میری موٹی توند پر پڑے موبائل فون میں نوٹیفکیشن کی ٹون بجی تو میں نے بازو بڑھا کر فون کا لاک کھولا اور نوٹیفکیشن پر کلک کیا۔ میرے سامنے غزہ میں جاری امدادی ایڈ کھلا۔ اس لمحے میرا ذہن اپنی معمول کی صلاحیت سے زیادہ کام کر گیا۔
میں نے سوچا، کیوں نہ اپنی شہرت کے جھنڈے عالمِ انسانیت کے سینوں میں گاڑ دوں۔ ویسے بھی مجھے عام طور پر اسلام کا لیڈر مانا جاتا ہے اور سرکاری وسائل تو میری دسترس میں ایسے ہیں کہ کسی کام کے لیے کن کہوں تو ”فیکون“ ہو جائے۔
میں نے ڈرائیور سے کہا، شاپنگ مال کی طرف قافلہ لے چلو۔
سیکریٹری نے فوراً مال کے مالک کو میرے آنے کی خبر دی، تو راتوں رات مال کی لائٹس نے سیاہ تاریکی کو روشنی میں بدل ڈالا۔ میں نے کچھ عید کے تحائف پسند کیے اور سیکریٹری کو حکم دیا کہ اگلے دو دنوں میں لاکھوں گھرانوں کے لیے ایسے ہی تحائف فیکٹریز سے منگوائے جائیں، اور دو دن بعد میرا پرسنل جیٹ غزہ کی جانب روانہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ انتظامات کیے جائیں۔ ایک خصوصی ہدایت یہ بھی تھی کہ تمام میڈیا چینلز کوریج کے لیے میرے ہمراہ روانہ ہوں۔
تیسرے دن میں اپنے حکام بالا (آقاؤں) کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گیا کہ میں درحقیقت ان کا باطنی طور پر وفادار ہوں اور رہوں گا۔ یہ قدم محض دکھاوا ہے، میں اپنی اور عالمِ اسلام کی لیڈرشپ کو انسانوں، بالخصوص مسلمانوں کی نظر میں ظاہری طور پر منوانے کی خاطر اٹھا رہا ہوں۔عین ایسے ہی جیسے مذمتی بیانات اور پریس کانفرنسیں کی جاتی ہیں۔ بالآخر میں اس میں کامیاب ہو گیا۔
میری پرواز غزہ کی خاک چھاننے کے لیے اتری۔ میں نے تمام میڈیا کی موجودگی میں، ہاتھوں میں چوڑیاں تھامے، ایک مکان کے ملبے پر بیٹھی بچی سے بات چیت شروع کی۔ میں نے اسے بتایا کہ دیکھو، عالمِ اسلام تمہارے ساتھ ہے۔بچی نے لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو لیے مجھ سے سوال کیا: ”اب آئے ہو؟ میں نے تو اکیلے اپنے ماں باپ کے لوتھڑے سمیٹ کر اسی خاک میں دفن کیے ہیں۔
کیا میری چیخوں سے تمہارا کلیجہ نہیں پھٹا؟ کیا تم واقعی مسلمانوں کے لیڈر ہو؟ کیا ہماری سسکیاں تمہاری وفاداریاں بدل نہ سکیں؟ جب کوئی بم ہمارے جسم کی ہڈیوں سے ریشے ادھیڑ کر ہمارے چیتھڑے ہوا میں بکھیڑ رہا تھا، تو کیا تمہاری روح نہ کانپی؟ کیا ہم ایک جسم کی مانند نہیں تھے؟ کیا واقعی تم مسلمان ہو؟
اگر ہو تو یاد رکھو، ہمارے ہاتھ رب العالمین کے دربار میں تمہارے گریبانوں میں ہوں گے“۔میں سکتے کی حالت میں زمین میں دھنس گیا جب اس نے اپنی کلائیاں، جن پر ہاتھ نہ تھے، میرے سامنے کرتے ہوئے کہا: ”یہ چوڑیاں اپنی بیٹی کو دے دینا!“