چک بیلی خان شہر میں سوائے ایک پولیس چوکی کے کوئی سرکاری انتظامی ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے جہاں جرائم پیشہ لوگ منظم ہو کر اپنے دھندے کر رہے ہیں وہاں کئی سفید پوش لوگ مسائل کے حل کے نام پر تنظیمیں بنا کر اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے کوشاں ہیں یہ تنظیمیں کسی سرکاری کاغذ میں رجسٹرڈ بھی نہیں بس صرف فلاح کا لفظ دھوکے کیلئے استعمال کر رہی ہیں ان کی مثال کراچی کی اس تنظیم سے دی جا سکتی ہے جو 2008میں کراچی میں عبدالرحمٰن ڈکیت نے پیپلز امن کمیٹی کے نام سے بنائی تھی 2009میں عبدالرحمٰن ڈکیت کی موت کے بعد عزیر بلوچ کو اس کا سربراہ بنایا گیا
جس نے اس وقت پیپلز امن کمیٹی کے نام پر لوگوں کو اکٹھا کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کی آشیر باد لی اور اس پیپلز امن کمیٹی کو لیاری گینگ کی شکل دے دی اس امن کمیٹی نے کراچی میں سینکڑ و ں لوگوں کی خون ریزی میں اپنا کردار ادا کیا 2014تک اس کا دائرہ کار کراچی میں آباد کئی بلوچ آبادیوں تک پھیل گیا اس طرح امن کمیٹی نے بربادی کی وہ بنیاد رکھی جسے سمیٹنا حکومتی اداروں کیلئے بھی مشکل ہو گیا یہ صورتحال تو کراچی جیسے بڑے شہر میں ہوئی چک بیلی خان جیسے چھوٹے اور انتظامی سہولتوں سے محروم شہر میں ایسی تنظیموں کا پنپنا بہت آسان نظر آ رہا ہے چک بیلی خان میں آئے روز ایسی تنظیمیں بنائی جاتی ہیں اور انھیں سرکاری قوانین سے مبرا رکھ کر غیر قانونی طریقے سے چلایا جاتا ہے ان تنظیموں کے کوئی دفاتر نہیں سرکاری سکولوں اور مانگی تانگی جگہوں پر اجلاس کئے جاتے ہیں گھوم پھر کر چندے اکٹھے کئے جاتے ہیں
صاحب ثروت لوگوں کو ڈھونڈ کر فلاح کے نام پر فنڈز مانگے جاتے ہیں جن کے آڈٹ کا نہ کوئی سرکاری اور نہ ہی تنظیم کے اندر میکانزم موجود ہوتا ہے ان میں ایسی تنظیمیں بھی موجود ہیں جن کے بانی و اراکین وہ لوگ ہیں جو مذہب وجہاد کے نام پر اکثر و بیشتر فنڈزز اکٹھے کرتے نظر آتے ہیں کئی ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کے دھندے اور پیسے ڈبل کرنے کے دھندوں میں بھی ملوث رہ چکے ہیں ان کے علاوہ ایسے لوگ بھی ان تنظیموں کے اراکین سے منسلک ہیں جو گاڑیاں چھیننے اور چوریوں کے مقدمات میں تھانے چوکیوں میں رہ چکے ہیں شہر میں قائم ان تنظیموں کی کوئی رجسٹریشن نہیں اور نہ ہی عام رکن کو اراکین کی مکمل تعداد کا علم ہوتا ہے کوئی الیکشن کا طریقہ کار نہیں نہ ہی فنڈز کے آڈٹ کاکوئی ذریعہ ہے عام کارکنان کو صرف راہ خدا کیلئے کام اور نیکی کا چکمہ دیا جاتا ہے جس سے سادہ لوح کارکنا ن اس چکمے میں آ جاتے ہیں
کئی کارکنان معاملات کی اصلیت کو سمجھ کر تنظیم سے الگ ہو جاتے ہیں پھر ان کی جگہ پر کرنے کیلئے نئے شامل کر لئے جاتے ہیں ان تنظیموں کو رجسٹریشن کے عمل تک نہ لے جانے کی وجوہات اور مقاصد جو بظاہر نظر آتے ہیں وہ یہی ہیں کہ رجسٹریشن میں جانے سے اوپر بیان کئے گئے وارداتیوں کے دھندے قانون کی نظر میں آ جائیں گے کرتا دھرتا لوگوں کی اگراہی کے متعلق قانون باز پر س کر سکے گا جو ان کیلئے گھاٹے کا کام ہو گا اگر اس طرح کے غیر قانونی کاموں کو کھلی چھٹی دی جاتی رہی تو بہت جلد یہی تنظیمیں پیپلز امن کمیٹی(لیاری گینگ) اور طالبان کمیٹیوں کی شکل اختیار کر کے معاشرے کو ہائی جیک کر لیں گی لہٰذا حکومتی انتظامی اداروں بالخصوص ڈپٹی کمشنر راولپنڈی اور پولیس کے اعلیٰ حکام سے اپیل کی جاتی ہے کہ مسئلہ کی طرف خصوصی توجہ دی جائے اورایسے غیر قانونی دھندوں کے خلاف کاروائی کی جائے