فطرت کس چیز کا نام ہے۔ فطرت ایک عظیم احساس زندگی کا نام ہے اور رب تعالی کی ذات نے ہر انسان کو فطرت اسلام پے پیدا کیا۔اس کے بعد کچھ لوگ ہندو، یہودی، عیسائی بن جاتے ہیں جد کے سبب۔لیکن اگر بعد میں رب کی ذات کرم نوازی فرمائے تو وہ پھر فطرت اسلام پے گامزن ہو جاتے ہیں۔دنیا جس ڈگر پے جارہی ہے ایسا کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ کیونکہ آجکل تو دنیا کے حالات واقعات آپ ملاحظہ کررہے ہیں اس میں دنیاوی زیب و زینت و آرائش زیادہ ہے۔اس واسطے جو کافرانہ فطرت کے لوگ ہوتے ہیں وہ اسی کو اپنی زیست کا سرمایہ سمجھ کے گزارنے کی سعی کرتے ہیں۔کیونکہ اسلام میں اس قسم کی زیب و زینت کو کسی شمار میں نہیں لایا جاتا۔رب تعالی کا ارشاد ہے ” اور ہم نے مزین کر دیے ان کے اعمال ” یہاں دنیاوی برے اعمال مراد ہیں اور وہ دنیاوی زندگی کو ہی تو سب سمجھ لیتے ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ کیونکہ جب فطرت اسلام پہ انسان کو پیداا کیا گیا تو پھر ایزدی کا تقاضا بھی اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنا ہوگا نہ وہ ذات یہی تو چاہتی ہے۔لیکن جن کے قلب پے مہر ثبت ہو جاتی ہے تو پھر ان کو حق سچ فہم و ادراک میں آنا محال است۔ اب اک پہلو یہ بھی ہے جہاں سے انسان کی فطرت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی اچھی عادت پائی جاتی ہے تو اکثر اوقات کہا جاتا ہے اسکی فطرت میں یہ چیز شامل ہے لیکن اگر کوئی شخص ہزار گنا اچھا ہو اور اس کاکوئی ایک فعل قبیح والا پہلو جب عیاں ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں
باقی سب خوبیاں ہیں لیکن یہ خرابی فطرتا ہے جو نہیں بدلے گی۔یہ وہی فطرت ہے جو ماں باپ نے ایک بچے میں روز اول سے ڈال دی ہوتی ہے یا اس میں پڑ جاتی ہے اگر ماں باپ اپنی اولاد کو اچھے اخلاق و اطوار سیکھاتے ہیں تو معاشرے میں اس شخص کا حد درجہ احترام بجا لایا جاتا ہے۔اور اگر برائی کی راہ پے گامزن ہوتا ہے تو پھر کہتے ہیں یہ فطرتا غلط انسان ہے یہ اسکی تربیت پے انگشت اٹھتی ہے۔ہاں لیکن ایک پہلو ہے وہ ہے اخلاق جس کے ذریعے ہم اس عادت کو بدل سکتے ہیں جو ہم نے بچپن میں اختیار کرلی۔ ہم اس بات پہ ہمہ وقت غور و فکر کرتے ہیں کے آخر فطرت کیوں نہیں عجلتا بدلی جاسکتی۔ تو اسکی وجہ یہ ہے کے بچپن میں جب انسان کا ذھن کچا ہوتا ہے تو اس وقت جو عادت وہ اپنے اندر سمو لیا ہے یا سموئی جاتی ہے وہ اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے اور اب جو ں جوں وہ معالات زیست بسر کرتا ہے وہ عادت بھی پختہ ہوتی جاتی ہے اور اک وقت آتا ہے کے وہ اسکی فطرت کا اہم پہلو بن کر رہ جاتے ہے اور اب وہ کبھی بدلنے کا نام بھی نہیں لیتیں۔اس واسطے ایک اچھے والدین کو اپنی اولاد میں اچھی فطرتیں اور عادتیں ڈالنی چاہئیں۔جن کی بدولت وہ اپنے آپ کو معاشرے میں احسن انداز میں پیش کر سکتا ہے۔آپ بے شک اک قابل آدمی ہوں اور اچھی حیثیت سے مانے جاتے ہوں لیکن اگر آپ فطرتا درست نہیں توآپکی اس قابلیت کا کوء فائدہ نہیں۔ سعی کرنی چاہیے والدین کو کے وہ اپنی اولاد کو اچھی راہ دکھلائیں تب کہیں جاکے اک اچھی نسل کی تشکیل ہوگی اور اک اچھا معاشرہ قیام عمل ہوگا۔
آج کے اس پر فتن دور میں علم بہت ہے لیکن اس پے عمل نہیں۔وہ کیوں؟ کیونکہ فطرتا اس شخص کو غلط روش اختیار کرنے کے متعلق راہنمائی کی گئی۔ اور وہ جاہلانہ بات کرتے ہیں باوجود علم کے ہم نے اپنے اسلاف سے تو یہ سیکھا کے ہم فطرتا اسلام پے پیدا ہوئے لیکن نام ہی ہے دور حاضر کو مدنظر رکھیں اگرتو۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ
”ہیں تو وہ اباء تمہارے اور تم کیا ہو
ہاتھ پے ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو”
جب اس دور کے والدین ہی اپنی اولادوں کو پیدا ہوتے ہی کلمے کی جگہ انگریزی حروف تہجی سیکھائیں گے انگریزوں کے نام پڑھائیں گے مستقبل میں نمونہ کے طو ر کے بیٹا دیکھو آپ نے بڑے ہوکر آئن سٹائن بننا ہے۔ تو پھر کیا خاک آگاہی ہوگی اسلام کی اور پھر یہ مقولہ سننے میں آتا ہے اکثر کے اولاد نافرمان ہے اس میں ادب نہیں ادب کہاں سے آئے گا جب ہم نے کبھی ان کو بتایا ہی نہیں اسلام کیا ہے، اللہ کی ذات کیا ہے، رسول اللہ ﷺ کون ہیں،قرآن کیا ہے اسکی تعلیمات کیا ہیں تو پھر خاک فہم و ادراک ہوگا۔سو اس کا حل یہی ہے اور ازل سے رہا ہے
کے اغیار کی تہذیب و تمدن کو ترک کریں اور اسلام پر اپنی اور اپنی اولادوں کو لائیں تب کہیں جا کے اسلامی معاشرہ قائم ہوگا۔تب جا کے پر فتن دور میں تین سو تیرہ ہزارون کے بلمقابل ہوں گے اور اللہ کی نصرت بذریعہ ملائکہ ہوگی تب جا کے سلطان ایوبی،محمود غزنوی محمد بن قاسم جیسے جہانباز پیدا ہوں گے ورنہ صدیوں صدیوں ممکن نہیں۔ رب کے کلام نبی کے فرمان پر عمل پیرا ہوں اور اپنی اولادوں کو یہ گھٹی میں پھیلائیں ورنہ پھر یہی سننے کو آئے گا کون محمد کون اللہ اور کیا ہے یہ کلمہ ہم تو ماڈرن ہیں یہ تو پرانی باتیں ہیں ناعوذ باللہ من ذلک۔لہذا اپنی اولادوں کو فطرت اغیار پے نہیں بلکہ فطرت اسلام پے عمل پیرا ہونے کے کوشش میں سرگرداں ہو۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔والسلام