یہ سچ ہے کہ زندگی ہرانسان کوعزیزہے بلکہ انسان کو ہی نہیں ہر وہ مخلوق جوسانس لے رہی ہے وہ جینا چاہتی ہے اسے زندگی عزیزہے یہ الگ بات ہے کہ زندگی کسی کو ستاتی ہے کسی کو رلاتی ہے اور کسی کیلیے مسکراہٹ بن کر سامنے آتی ہے ہرقدم پرزندگی ایک نیا روپ اختیارکرتی ہے زندگی کاہر موڑتلخ رویوں اورکڑے لمحات سے جڑا ہوتا ہے زندگی کاہرپہلو ہی آنسوں سے لبریز ہوتاہے لیکن آج میں اس پہلو پر بات کروں گا جس کا ہونا موجودہ حالات میں جرم بن گیا ہے وہ پہلوہے ’’غربت‘‘ غربت انسان کوتنہاکردیتی ہے غریب ہوناکسی جرم سے کم نہیں دورِحاضر میں غریب بے بسی کی تصویربن جاتاہے ہراٹھنے والی انگلی اس کے خلاف ہوتی ہے اوریوں وہ تنگ آکراپنی زندگی کے چراغ کوبجھا دیتاہے یاوہ چراغ آندھیوں کی نظرہوجاتاہے۔غریب کی اولاد سڑک پرایڑھیاں رگڑتے ہوئے بھوک اور پیاس کی حالت میں زندگی کوالوادع کردیتی ہے غریب گھر میں پروان چڑھنے والے بچے ظلم دیکھ کرسہم جاتے ہیں۔کسی شاعر نے کمال کہا
غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سکھا دی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
یہ مفلسی خداکی دین ہوتی ہے لیکن وقت کے حکمرانوں‘عادلوں‘ اور قاضیوں کاکردار مورخ تاریخ میں ہمیشہ کیلیے لکھ دیتاہے پھروہ چاھے تھرکے بھوکے پیاسے بچے ہوں یاکراچی کاوہ باپ جس کی اولادحکمرانوں کی بے حسی کی نظرہوجاتی ہے۔پرانے وقتوں کاایک بادشاہ تھا اس نے ایک دن اعلان کیاکہ میری رعایا فلاں دن میرے محل میں دعوت کیلیے آئے میں اپنی رعایا کومحل میں کھاناکھلاناچاہتاہوں۔بادشاہ کے حکم کے مطابق سب لوگ جمع ہوگے۔کھاناتیارہوگیا لوگوں کوکھلایاگیااِسی دوران بادشاہ کی گھڑی جوبے بہا قیمیتی تھی گم ہو گئی بادشاہ نے اپنے وزیروں کوبلایااورحکم دیاکہ کھاناکھانے کے بعدکوئی آدمی محل سے جانے نہ پائے حکم کی تعمیل ہوئی۔سب لوگوں کی تلاشی شروع ہوگئی۔بادشاہ کے سپاہی تلاشی کرتے کرتے ایک آدمی کے پاس پہنچے تواس آدمی نے تلاشی دینے سے انکارکردیا۔ بادشاہ کواورسب وزیروں کو یقین ہوگیاکہ چوری اِسی نے کی ہے بادشاہ نے اس آدمی سے سوال کیاکہ چوری تم نے کی ہے؟
اس آدمی نے سرہلاکرنہ کردی اب سب لوگ حیران ہیں کہ چوری بھی نہیں کی اورتلاشی بھی نہیں دے رہا کیسا عجیب انسان ہے کافی بحث کے بعدبادشاہ نے حکم دیااسے جانے دیاجاے بادشاہ حیرانی کے عالم میں اپنے کمرے میں داخل ہوتاہے کچھ وقت گزرنے کے بعدبادشاہ کوگھڑی مل جاتی ہے۔بادشاہ کے تجسس میں اضافہ ہوجاتاہے اورسوچنے لگتا ہے کہ آخر معاملہ کیاہے اس شخص نے گھڑی بھی نہیں چوری کی تلاشی دینے سے بھی انکارکردیاآخرمعاملہ کیاہے۔اسی سوچ میں گم ہوکربادشاہ اس شخص کے گھرکی طرف روانہ ہوجاتاہے جب بادشاہ اس شخص کے گھرپہنچتاہے جوایک جھونپڑی ہوتی ہے بادشاہ اندر داخل ہوتاہے اس شخص سے مخاطب ہوکے کہتاہے میری گھڑی مجھے مل گئی ہے۔تم مجھے یہ بتاو جب تم نے چوری نہیں کی تھی توتلاشی دینے سے کیوں انکارکیا۔اس غریب کاجواب بادشاہ کو ہلاکررکھ دیتاہے۔ وہ شخص کہتاہے کہ میرے اور میری اولادکے حکمران میرے بچے اوربیوی تین دن سے بھوکے تھے۔ آج جب میں آپ کی دعوت پرآیا تومیں نے
چندروٹیاں اپنے کْرتے کے نیچے چھپالی تاکہ بیوی اوربچو ں کی زندگی بچاسکوں۔اِس لیے میں نے تلاشی دینے سے انکارکر دیاتا کہ یہ روٹیاں باقی لوگ نہ دیکھ سکیں۔بادشاہ کے پاس آنسووں کے سواکوئی جواب نہ تھا
کوی روٹی چھپاکرچورہوگئے
کوی ملک لوٹ گے قانون لکھتے لکھتے
غربت پرہی دنیاکامختصرترین خطبہ جمعہ سوڈان کے امام شیخ عبدالباقی المکاشفی نے دیاوہ منبرپربیٹھے اورفرمایا
’’بھوکے مسکین کے پیٹ میں ایک لقمہ پہنچاناہزارمساجدکی تعمیر سے بہتر ہے‘‘
صفیں درست فرمالیں۔
157