عبدالستار نیازی/لاقانونیت کی انتہا ، عقوبت خانے ، ٹارچر سیل ، یہ کس لئے بنائے جاتے ہیں ؟ کہتے ہیں کہ مال برآمدگی کیلئے نجی ٹارچر سیل ہر تھانے کی حدود میں قائم ہیں، کیا ان کی قانون میں گنجائش ہے ؟ بالکل گنجائش نہیں ہے ، تو پھر یہ کیوں بنتے ہیں ، کس کی آشیرباد سے بنتے ہیں ؟ کیا ضلع کا سی پی او ، آر پی او ، ایس پی ، تحصیل کا ڈی ایس پی ، تھانے کا ایس ایچ او یہ سب ملوث ہوتے ہیں ؟ خبر یہ ہے کہ پولیس تھانہ گوجر خان کی زیرنگرانی ٹارچر سیل میں تشدد کے باعث شہری کی ہلاکت ہوئی ہے ، محمد الیاس نامی شخص کو 27جولائی کو حسنین شاہ سب انسپکٹر نے پولیس ملازمین کے ہمراہ حراست میں لیا ، نجی ٹارچر سیل میں رکھا ، تشدد کیا ، کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی، لواحقین تھانے کا چکر لگاتے رہے مگر انہیں روزانہ ٹال دیاجاتا رہا، لواحقین کی زبانی حسنین شاہ نے انہیں کہا کہ ایک گاڑی کے لین دین کے حوالے سے الیاس سے تفتیش کرنی ہے ، یہاں یہ سوال بہرحال میرے ذہن میں جنم لیتا ہے کہ 27 جولائی سے 11 اگست تک 15دن تک غیرقانونی حراست میں الیاس کو رکھا گیا ، کیا لواحقین نے ڈی ایس پی سرکل گوجرخان کا دروازہ کھٹکھٹایا ؟ جواب نفی میں ہے ، کیا لواحقین نے سی پی او راولپنڈی سے رابطہ کیا ؟ جواب نفی میں ہے تو میرے ذہن میں کھٹکتا ہے کہ (خدا نہ کرے) متوفی محمد الیاس کسی نہ کسی حوالے سے کسی اہم مقدمے میں ملوث یا مطلوب تھا ، جس کی وجہ سے لواحقین نے پندرہ روز تک تھانہ گوجرخان اور تفتیشی حسنین شاہ کے خلاف کوئی کاروائی نہ کی اور نہ اعلیٰ پولیس حکام کا دروازہ کھٹکھٹایا ، بہرحال پولیس تھانہ گوجرخان کے سب انسپکٹر حسنین شاہ سے بہت سنگین غلطی ہوئی جس کا ازالہ ہونا ناممکن سی بات ہے ، ظلم بالائے ظلم یہ ہے کہ پولیس حراست میں مرنے والے الیاس کی لاش گلیانہ روڈ پر پھینک کر اسے غلط رنگ دینے کی کوشش کر کے بھی گھناﺅنا فعل کیا گیا جس میں بطور انچارج سابق ایس ایچ او تھانہ گوجر خان چوہدری الیاس گجر بھی ملوث ہیں،لاش کی شناخت بروقت لواحقین نہ کرتے تو لاش کو لاوارث قرار دے کر چند گھنٹے بعد دفن کر دیاجانا تھا ، وہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ لواحقین تک تصویر اور خبر پہنچ گئی اور وہ بھاگم بھاگ ہسپتال پہنچے اور اپنے بھائی کو شناخت کیا ، جس کے بعد پولیس کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے،درخواست دینے کے باوجود رات کو ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور صبح احتجاج کی دھمکی دینے پر تمام انتظامیہ حرکت میں آگئی اور ایم پی ایز ، سیاسی و سماجی شخصیات نے موقع پر پہنچ کر حالات کو کنٹرول کیا، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میڈیا کی پوری سپورٹ اس موقع پر لواحقین کے ساتھ تھی ورنہ نہ تو لواحقین ایف آئی آر کا اندراج کراسکتے تھے اور نہ ہی انہیں کسی جانب سے انصاف ملنا تھا، میڈیا رات کے ایک بجے بھی لواحقین کی مدد کو پہنچا ،راقم خود صبح 9بجے سے دو بجے دن تک سول ہسپتال میں موجود رہا ، ایم پی اے چوہدری جاوید کوثر نے کمال ہمت کا مظاہرہ کرکے پورا دن اسی کام میں صرف کیا اور عوامی نمائندہ ہونے کا حق ادا کیااور مسلسل چھ گھنٹے تک ہسپتال میں موجود رہے، چوہدری جاوید کوثر نے لواحقین کو یقین دلایاکہ ان کے ساتھ انصاف ہوگا اور ان کی مرضی کی ایف آئی آر کا اندراج ہوگا، لواحقین نے درخواست لکھی اور تھانے جاکر ایف آئی آر درج کرائی لیکن پھر بھی درخواست میں کمی کجی چھوڑ کر کچھ لوگوں کو فائدہ دیا گیا جو کہ قابل مذمت ہے، درخواست بھرپور نہ لکھے جانے کے پیچھے کیا عناصر ہیں ؟ یہ لواحقین بہتر جانتے ہیں ، میرے نزدیک یہ کیس انتہائی کمزور ہوچکاہے کیونکہ ایف آئی آر میں غیر قانونی حراست میں رکھنے اور تشدد کرنے کی دفعات ہی شامل نہیں، ایس ایچ او سمیت گیارہ پولیس ملازمین کا معطل ہونا معمول کی بات ہے ، مگر اتنا کچھ کرنا ضروری بھی تھا کیونکہ اس واقعے کا نوٹس آئی جی پنجاب نے لے رکھا ہے اور اس تفتیش کی نگرانی سی پی او راولپنڈی ، ایس پی صدر براہ راست کررہے ہیں، ذرائع کے مطابق مقدمے کے اندراج اور معطلی کے احکامات
کے بعد تمام پولیس ملازمین روپوش ہوچکے ہیں اور اب تک کسی بھی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہ آئی ہے جو کہ انتہائی تکلیف دہ بات ہے ،ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر لواحقین سے رابطہ کر کے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوششیں جاری ہے ، اس سے قبل بھی ایک ایس ایچ او نے تشدد کے ذریعے ایک شخص کو جان سے مارکر دیت دے کر راضی نامہ کر لیا تھا، مجھے بھی اس مقدمے کا راضی نامہ ہوتا دکھائی دے رہاہے، میں اُمید کرتاہوں کہ پولیس اپنے پیٹی بھائیوں کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کرے گی اور آئی جی پنجاب کی ہدایات پر سی پی او راولپنڈی اور ایس پی صدر ملزمان کو سزا دلوانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھیں گے، امید پہ دُنیا قائم ہے ۔ والسلام
153