ہماراپیاراملک پاکستان اسلام کےنام پروجودمیں آیااسکےقیام کا مقصدکلمہ،اسلامی قوانین،قرآن وسنت کی تعلیمات عمل پیرا ھوناتھارشوت سفارش وغیرہ کاخاتمہ,غریب بےبس،بےکس،بےسہارا،بےگھرافراد،یتیم مسکین،کوسہارادیناتھاپھراسکانام بھی اسلامی رکھاگیااسکےآئین کوبھی قرآن وسنت کےساتھ جوڑاگیالیکن اس پر عملدرآمدمکمل طورپرممکن ناھوسکاہمارےحکمراں ہرجماعت کےلیڈرنےاس ملک کوریاست اسلامی اور ریاست مدینہ کاتصوردینےکانظریہ پیش کیااس نعرہ میں توہرکوئی صف اول میں ہےلیکن جب اقتدار میں آتےہیں تواس پرعمل کرنےکی بجائےہمیشہ اسکےبرخلاف عمل کرتےہیں
اب ریاست مدینہ کامقدس نام تولیاگیالیکن سوال یہ ھےکہ اسکےمطابق عمل کتناکیاگیاعوام کےدکھ درد کوکتنامحسوس کیاگیاعوام پرظلم وزیادتی کاکیسےاورکتناازالہ کیاگیاعوام کوسہولیات فراہم کرنےمیں کتناکرداراداءکیاگیاعوام کو روزگار کاروبار میں کس قدر سہولیات فراہم کی گئیں ریاست مدینہ میں صحابہ کرام نےبھوک کی وجہ سےایک پتھر باندھاجبکہ سرکارِ دوعالمﷺنےپیٹ پردوپتھرباندھےہمارےہاں سیاسی لیڈران سےاسکی توقع تودورکی بات اسکاتصوربھی ممکن نہیں وہ تو کہتےہیں اگر عوام بھوک وپیاس سےنڈھال ھےمہنگائی کی چکی میں پس رہی ہےتوہم کیاکریں خلیفہ اول سیدناصدیق اکبررضی اللہ عنہ جب خلیفہ منتخب ھوئےتوفرمایامیراوظیفہ ایک مزدور کی اجرت کےبرابرکردوکسی نےپوچھااگرآپکاگزارا ناہواتوآپ نےیہ فرمایامیں مزدورکی اجرت بڑھادوں گایہ نہیں فرمایامیں اپناوظیفہ الاؤنس،سیکورٹی،پروٹوکول وغیرہ بڑھادوں گا،
اسی طرح ایک مرتبہ بیوی نےعرض کیااےخلیفہ وقت میرا دل میٹھاکھانےکوکرتاہےآپ نےفرمایا میرےپاس گنجائش نہیں جبکہ ہمارےنگہبان گاڑی ہیلی کاپٹر سمیت سرکاری مشینری خواہشات کےپوراکرنےپرلگادیتےہیں جب بیوی نےاپنی مدد آپ کے تحت کچھ پیسےجمع کرکہ میٹھاپکایاتوصدیق اکبرنےفوری اپنے ماتحت کوبلاکریہ حکم جاری کیاکہ میراوظیفہ کم کردیاجائےکیونکہ میرےگھر میں آمدنی زیادہ آرہی ہےکیاہےکوئی اسلامی حکمران جودعوی کی بجائے عملی طورپرمیدان میں آئےخلیفہ دوئم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ جب خلیفہ منتخب ھوئےتومسجدنبوی میں پیوندلگےکپڑےپہنے زمین پر اینٹ کاتکیہ سرکےنیچےرکھ کر سوجاتےہیں کوئی پہرہ دارنہیں بلکہ پہرہ بھی خوددیتےہیں دن کو لوگوں کےمسائل سنتے ہیں جبکہ رات کومدینہ کی گلیوں میں لوگوں کی خبر گیری بھی کرتے ہیں
اور پہرہ بھی دیتےہیں اور فرماتےہیں میرےدور میں اگر کوئی جانور بھی بھوک پیاس سے مر گیا تو عمر سے پوچھ ھو گی جبکہ ہمارے ملک میں بےروزگاری سےلوگ ملک چھوڑکرجارہےہیں،لوگوں کی آمدنی محدودہےجبکہ اشیاء خریدخاص کر بجلی وگیس سوچ سےزیادہ مہنگی لوگ آئےروز زندگی سے تنگ لوگ خودبھی خودکشی کررہے ہیں جبکہ بچوں کاگلہ بھی گھونٹنےپرمجبورہیں جبکہ رعایا کاخیال رکھنے والوں میں سے کسی کوکوئی فکرنہیں کوئی پرواہ نہیں ہمارےپیارےملک پاکستان میں دن بدن مہنگائی بڑھتی جارہی ہے،بےروزگاری کاجن قابومیں نہیں آرہا،اشیاءخوردونوش کی قیمتوں میں ناقابل یقین حدتک اصافہ ہورہاہے،ضروریات زندگی کی اشیاء کاعام آدمی کی پہنچ سےدورہوناعام سی بات ھو گئی ھے،اب اس ساری صورتحال میں عام آدمی کس قدرمتاثرہوتاہےاسکوسمجھناکچھ مشکل نہیں ایک طرف سرکار کے ملازمین ہیں جنکی تنخواہ وقتاًفوقتاًبڑھتی رہتی ہیں،ایک طرف وہ لوگ ہیں جوتاجرہیں دوکاندار ہیں مارکیٹ میں خریدوفروخت کاکام کرتے ہیں ان دونوں کومہنگائی بےروزگاری سےکوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ تاجراگرایک چیز 170کی فروخت کررہاہے
تواس میں وہ اپنامنافع رکھ کرفروخت کرتاہےاگریہی چیز210تک پہنچ جائےتوپھربھی وہ اپنامنافع رکھ کرہی فروخت کرےگااگرفرق پڑتاہےتواس عام آدمی کو پڑتاہےجوخریدارہےجوگاہک کی صورت میں سامنے کھڑاہےجسکاکوئی ذریعہ آمدن نہیں جومعاشی طور پربھی کمزور ہےجوصبح کاانتظارکرتاہےکہ کب سورج طلوع ھواوروہ اپنے گھر والوں کی کفالت کےلئےنکل کھڑاھو اسےاپنی منزل کابھی اندازہ نہیں ہوتاوہ پہلےچیز170کی خریدتاتھااب 210کی،اسکےبچےبھی زیرتعلیم ہیں،اسکاگھربھی کرایہ کاہے،اس نےبجلی گیس کابل بھی اداءکرناہے،گھرمیں کھاناپینا بھی مہیاکرناہےبچوں کی فرمائش بھی پوری کرنی ہیں،گھرمیں خوشی غمی کاذمہ بھی اس نے اٹھایاہےان سب ذمہ داریوں میں اپنےارمان,اپنی خواہشات،بچوں کی خوشیاں کاگلہ گھوٹنےپرمجبورہے،وہ گھرسےمحنت مزدوری کےلئےتونکلتاہےمگرکبھی مزدوری نہیں ملتی،کبھی موسم کی خرابی آڑھےآجاتی ہے،توکبھی ہڑتال،کبھی مظاہرےتوکبھی کچھ توکبھی حالات کی سختی اسکی محنت مشقت کےآڑےآجاتی ہیں
،اسی طرح پورامہینہ گزرجاتاہےاور یہ مزدور،دیہاڑی دارطبقہ،گرمی سردی،کھٹن مراحل سےگزرنےکےباوجود اسی الجھن پریشانی میں مہینہ گزاردیتاہے پھر بچوں کےسکول کی فیس، بجلی وگیس بل،گھر کاراشن جب یہ سب کچھ دیکھتے ہیں پھر اپنی آمدن کی طرف دیکھتاہےتومایوس ھوجاتاہےجن لوگوں کی ماہانہ تنخواہ ہیں وہ تو سب حساب سےگزارا کرلیتے ہیں لیکن جوتوکل پرچل رہےہوتےہیں مسائل،مصائب انکی راہ میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں انکا گزارہ ناممکن ھےاشرافیہ کوسہولیات فراہم کی جاتی ہیں غریب،یتیم،مسکین،بیوہ،بےسہارہ،پرٹیکس لگاکر حالانکہ ھونایہ چاہیےکہ ان غریب عوام کوسہولیات دینی چاہیےانکی خبرگیری کرنی چاہیےانکو زیادہ سےزیادہ ریلیف دیناچاہیےناکہ انکوتکلیف اذیت میں مبتلاء کرناچاہیےاور میرےپیارےآقاومولا کےارشادکےمطابق ہر شخص سےاسکی رعایا کے متعلق پوچھاجائےگااسوقت کوسامنےرکھوجب 24کڑوڑ عوام کےبارےمیں اللہ بروزقیامت،روز محشرسوال کرےگاوہاں حساب دینا ہےوہاں ناعہدہ کام آئےگاناسفارش کام آئےگی نارشوت چلےگی اورناھی کسی صورت چھٹکارا ممکن ھوگا