102

عوام کے بنیادی مسائل پر اولین ترجیح کی ضرورت/راجہ طاہر

ترقی یافتہ ممالک کی ترقی میں سب سے اہم کردار ان کے حکمرانوں کا ہے جو فضو ل پروٹوکول کو اپنے لئے ناجائز سمجھتے ہیں اور کئی ممالک کے وزراء اور وزیر اعظم تک سائیکلوں پر سفر کرتے ہیں عوامی بسوں اور ٹرینوں میں کھلے عام سفر کرتے ہیں نہ ان کی جان کو خطرہ ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے عوام کا وقت ضائع ہوتا ہے ایسے میں ان کے عوام بھی ان سے خوش ہوتے ہیں ان ترقی یافتہ ممالک میں جو بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں چاہے وہ ترقیاتی ہوں یا دیگر ان میں یہ بات سامنے رکھی جاتی ہے کہ عوام کو ان کی کس حد تک ضرورت ہے کوئی بھی حاکم صرف اور صرف اپنی پبلسٹی کے لیے نہ تو کوئی منصوبہ لگا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو ایسے منصوبے کی منظوری مل سکتی ہے وجہ کیا وجہ ہے ان کی عوام دوستی مگر پاکستان میں صورت حال اس کے بلکل بر عکس ہے یہاں حکمران سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں وہ ایسے منصوبوں کو ترجیح دیتے ہیں جن میں دکھلاوا زیادہ ہو بلاشبہ ان میں عوامی بھلائی ہو یا نہ ہو اسی وجہ سے ایسے منصوبے بعد ازاں ناکام ہوتے ہیں موجودہ حکومت کو مینڈیٹ اس لئے ملا تھا کہ سابق حکومت عوام کو بنیادی ضروریات جن میں بجلی ،گیس ، اور روز مرہ کی اشیاء مناسب قیمتوں پر اور مناسب اوقات میں فراہم نہیں کر سکی سب سے اہم وہ عوام کو بجلی نہیں دے سکی تھی مگر موجودہ حکومت نے بھی آتے ہی اسی پوائنٹ کو سامنے رکھتے ہوئے عوام کو باور کرایا کہ اب ان کو کچھ اور ملے نہ ملے بجلی ضرور ملے گی مگر بعد ازاں وہ اپنا یہ وعدہ بھول گئی شاید کے اس منصوبے میں خوشنمائی اور دیکھائی دینے والی کوئی خاص چیز نہیں تھی اس حکومت نے میٹرو چلا کر یہ اعلان کیا کہ قوم کا معیار زندگی بلند ہو چکا ہے اور اب قوم کو ایک نسبتا بہتر اور سستا سفری ماحول میسر ہو گا لیکن اگر اسی منصوے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے اور باقی مسائل کوسامنے رکھاجائے تو یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اگر انسان اپنے بنیادی ضروریات کو چھوڑ کر کسی ایسے منصوبے کو ترجیح دے جو اس کی زندگی کیلئے اتنا ضروری نہیں تھا جتنی بنیادی ضروریات تو ایسے منصوبوں کے ثمرات کا بخوبی اندزاہ لگایا جا سکتا ہے جب ہم بجلی جیسی بنیادی ضرورت سے اس قدر دور ہیں تو کیسی میٹرو کون سی میٹرو اب جبکہ رمضان کا مہینہ اپنی برکتوں کے ساتھ جاری ہے ایسے میں لوڈشیڈنگ کی وجہ سے لوگوں کو جب سحری افطاری اور دن میں گرمی سے تڑپتے ہوئے اور حکومت کو کوستے ہوئے اور بد دعائیں دیتے ہوئے دیکھتے ہیں اگرحکومت پہلے توانائی بحران کو ترجیح دیتی تو شاید حالات اب یہ نہ ہوتے کیونکہ عوام میٹرو کی فرمائش نہیں کر رہی تھی بلکہ عوام تو توانائی بحران کے خاتمے کی سوچ رہی تھی ا ب عوام کا احتجاج تو بنتاہے سابق دور حکومت میں جب بجلی، بجلی کی رٹ لگائے موجودہ حکمران مینار پاکستان پر غریبوں کا ڈنڈی پنکھا چلایا کرتے تھے ساتھ اس وقت کی حکومت پر تنقید کے نشتر چلایا کرتے تھے تو شاید یہ نہیں جانتے تھے کہ ایک دن ان پر بھی ایسا ہی وقت آسکتا ہے یہ تو بھلا ہو اپوزیشن جماعتوں کا جو تھوڑی آرام پسند ہیں جو اس طرح دیکھاوئے کا احتجاج نہیں کرتی ورنہ تو سارا پنجاب اس وقت احتجاج کرنے والوں نے بند کیا ہوتا حکومت کے اس منصوبے سے عوام خوشحال نہیں ہو جائیں گے نہ ہی ان کی مشکلات ختم ہو جائیں گی اگر حکمران اس منصوبے سے یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ پاکستان بدل گیا ہے تو آئیں اور دیکھیں کہ کس طرح روزے دار اندھیرے میں روزے رکھ رہے ہیں کس طرح رمضان کی برکتیں ان سے چھینی جا رہی ہیں پہلے ایک سال پھر دو سال اور آخر میں پانچ سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے خوشنماء اعلان کرنے کے بعد اب حکومت کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ لو شیڈنگ کے اس جن کو کیسے قابو کیا جائے ہمارے بجلی کے وزیر جہاں کہیں جاتے ہیں میڈیا والوں سے ایک گزاراش پہلے ہی کر دیتے ہیں کہ صاحبو خدا کے لئے لوڈ شیڈنگ کے علاوہ اور جو بھی سوال ہو سکے وہ کرو عوام کا خد مت گار جواب کے لئے حاضر ہے اب اگر ایسا ہو گا تو کون کہتا ہے 2018میں بجلی کا بحران ختم ہو جائے گا ویسے بھی یہ ورثہ ورثہ کا کھیل ہے جو ہر جانے والی حکومت آنے والی حکومت کے لئے چھوڑ کر جاتی ہے تاکہ اس کے پانچ سالوں میں وہ بھی اس ورثے کو استعمال میں لاتے ہوئے اپنے پانچ سال پورے کر لے اور یہی وراثت اگلی حکومت کو دے کر اس کا بھی بھلا کر دے بلاشبہ جمہوری ادوار نے قوم کو سمت دی اور اس کی معاشی ترقی کی جانب سفر کا آغاز کیا اس کے برعکس مارشل لاء ادوار نے ملک کو لاتعداد مسائل سے ہمکنارکیا لسانی فرقہ وارانہ اور گروہی تعصبات نے آمرانہ ادوار میں پرورش پائی اور ملک کو سماجی ومعاشی اعتبار سے پیچھے دھکیل دیا لیکن اب تو جمہوریت کو پھر سے زندہ ہوئے عرصہ ہونے کو ہے مگر اس کے ثمرات جو عوام تک پہنچنے چاہیے وہ ابھی تک نہیں پہنچ سکے عوام کے وہ مسائل جن کو اس طویل عرصے میں ختم ہو جاناچاہیے تھا ختم نہیں ہو سکے اس کی بنیادی وجوہات کا تعین کرنا وقت کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو کہ لوگ ایک بار پھر کسی انجانی طاقت کے آنے پر مٹھایاں تقسیم کر رہے ہوں خوشی کے بھنگڑے ڈال رہے ہوں اس لئے ضروری ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل کو اولین ترجیح دی جائے ۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں