عمل اور ردِ عمل کا فلسفہ — فہم، ذمہ داری اور انسانی شعور

زندگی ایک بہتا ہوا دریا ہے، اور اس دریا کی ہر لہر کسی نہ کسی حرکت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے میں ایک اصول کارفرما ہے — عمل اور ردِ عمل کا اصول۔ فطرت ہمیں ہر لمحہ یہ سبق دیتی ہے کہ کوئی بھی عمل بغیر اثر کے نہیں رہتا۔ سورج طلوع ہوتا ہے تو روشنی پھیلتی ہے، بادل اُبھرتے ہیں تو بارش برستی ہے، انسان مسکراتا ہے تو سامنے والے کے دل میں نرمی اُترتی ہے۔ یہی اصول ہماری سوچ، گفتار اور کردار پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

جو شخص اس فلسفے کو نہیں سمجھ پاتا، وہ زندگی کے رشتوں، فیصلوں اور تنازعات میں اندھیرے میں ہاتھ مارنے لگتا ہے۔ وہ غیر جانبداری کے نام پر خود کو محفوظ سمجھتا ہے، مگر درحقیقت وہ اپنی بے عملی کے ردِ عمل سے بے خبر ہوتا ہے۔ غیر جانبداری بسا اوقات ضمیر کی خاموش موت ہوتی ہے۔ اگر ظلم کے مقابلے میں ہم خاموش رہیں، اگر ناانصافی دیکھ کر نظریں چرا لیں، تو یہ بھی ایک “عمل” ہے، جس کا “ردِ عمل” معاشرتی بے حسی اور اخلاقی زوال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

انسان کی اصل فہم اسی وقت جاگتی ہے جب وہ اپنے عمل کے نتائج پر غور کرتا ہے۔ ہر خیال، ہر لفظ، ہر رویہ ایک توانائی رکھتا ہے۔ اگر ہم منفی سوچیں پھیلائیں گے تو ماحول میں منفی ارتعاش پیدا ہوگا، اور اگر ہم خیر، محبت اور انصاف کے قائل ہوں گے تو وہی توانائی ہمیں گھیر لے گی۔ علامہ اقبال نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا تھا کہ

“عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے”

یعنی انسان کے اعمال ہی اس کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ دنیا کے بڑے مصلحین نے بھی یہی کہا کہ کسی بھی معاشرے کی اصلاح باتوں سے نہیں بلکہ اعمال سے ہوتی ہے۔ لیکن اعمال کی بنیاد فہم پر ہے — اور فہم تب ہی پیدا ہوتی ہے جب ہم عمل و ردِ عمل کے تعلق کو سمجھنے لگتے ہیں۔

اشفاق احمد ایک جگہ لکھتے ہیں کہ انسان کا اصل امتحان اُس وقت ہوتا ہے جب اُس کے اختیار میں ردِ عمل دینا ہو۔ اگر وہ اُس لمحے شعور کے ساتھ فیصلہ کر لے کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا، تو وہ خود کو بھی اور دوسروں کو بھی بہتر سمت دے سکتا ہے۔ لیکن جو شخص ردِ عمل میں غصے، ضد یا لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ نہ صرف دوسروں کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ اپنی روح کے سکون کو بھی کھو دیتا ہے۔

لہٰذا، اگر ہم واقعی باشعور انسان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اعمال کے محرکات اور نتائج دونوں کو سمجھنا ہوگا۔ کسی بھی معاملے میں غیر جانبدار رہنے سے پہلے ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ ہماری خاموشی یا بے عملی کس ردِ عمل کو جنم دے سکتی ہے۔ فہم کا پہلا قدم یہی ہے کہ ہم اپنے ہر عمل کے دائرے کو پہچانیں، کیونکہ کائنات میں کوئی بھی حرکت بغیر اثر کے نہیں رہتی۔

آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ فلسفۂ عمل و ردِ عمل دراصل فلسفۂ حیات ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمارا ہر قدم، ہر سوچ، اور ہر فیصلہ ایک لہر کی طرح ہے جو کسی نہ کسی کنارے سے ضرور ٹکراتی ہے۔ اگر ہم اپنے اعمال کو شعور، نیتِ خیر اور انصاف کی روشنی میں ڈھال لیں، تو ہماری زندگی خود ایک مثبت ردِ عمل بن جائے گی — ایک ایسا ردِ عمل جو روشنی، محبت اور بیداری پھیلاتا ہے۔