ایک دن اپنے دوست طارق وحیدکے ساتھ صبح سویرے جو گنگ کے لیے نکلا،ایک عام سے ہوٹل میں ناشتہ کیا۔اور اس کے بعد گھر جانے کی بجائے ایک پارک میں بیٹھ گئے۔ابھی بیٹھے ہی تھے
کہ ہماری نظر ایک بزرگ پر پڑی جن کے ارد گرد کم و بیش دس پندرہ کتابیں اور رسائل پڑے تھے۔ان کے ہاتھ میں ڈائری تھی جس پر وہ وقتا فوقتا کچھ نوٹ کر رہے تھے۔
طارق اور میں زور زور سے قہقے لگا کر باتیں کر رہے تھے اچانک ہمیں خیال آیا کہ ہم شاہد اس ہستی کے کام میں خلل ڈال رہے ہیں۔ہم نے ان سے پوچھا کہ ہم آپ کو ڈسٹرب تو نہیں کر رہے تو ان کا خوبصورت جواب ہم دونوں کے اذہان میں ہمیشہ کے لیے ساکت ہو گیا۔
جواب یہ تھا،بیٹا آپ میرے اور قریب آکر باتیں کریں ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ وہ ہر حال میں اپنا کام کرناجانتے ہیں۔انہوں نے ہم سے ہمارے نام پوچھے اور پھر ہم نے بھی ان کے بارے میں دریافت کیا تو کہنے لگے بیٹا میں عمار کا والد ہوں ہمیں حیرانگی ہوئی
کہ یہ بزرگ ہمیں اپنے بیٹے کے بارے میں ایسے بتا رہے ہیں جیسے ہم ان کے بہت پرانے جاننے والوں میں سے ہوں ہم نے مزید دریافت کیا کہ عمار کیا کرتا ہے۔تو اْن کا جواب یہ تھا کہ میں عمار شہید کی بات کر رہا ہوں۔یقینا آپ نے راولپنڈی شہر میں ایک مصروف چوک عمار چوک کا نام سنا ہوگا۔
یہ چوک میرے بیٹے عمار شہید کی شہادت کے فوراََ بعد میرے بیٹے کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا۔جب میرے بیٹے نے ہوش سنبھالا تو میں نے اْسے اپنی ایک خواہش کے بارے میں بتادیا تھااور وہ خواہش یہ تھی
کہ میرا بیٹا ملک و قوم کی بقا اور حفاظت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے۔اور پھر اللہ اللہ کر کے وہ وقت بھی آگیا کہ وہ کمیشن آفیسر بنا اور ڈیوٹی پر بھیجنے سے قبل میں نے اپنی خواہش ایک دفعہ پھر عمار کے گوش گذار کر دی۔
مختصر یہ کہ کارگل کے محاذ کے لیے جب پاک فوج کے جوانوں کا چناؤ ہوا تو میرے بیٹے کا نام اس لسٹ میں نہیں تھا۔جس کے لیے اس نے بر سوں انتظار کیا۔مجھے فون آیاکہ ابا جان میرا نام کارگل کے محاذ کے لیے نہیں شامل کیا گیا تو پلیز آپ دعاکریں کہ میں اپنی اور آپ کی خواہش پوری کر سکوں
،جہاں تک مجھ سے ہوسکا میں نے بھی دوڑ دھوپ کی اور اللہ کے فضل و کرم سے کشمیر کے اہم محاذ کارگل کے مقام پر دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہونے والے جوانوں میں عمار بھی شامل تھا
پل پل کی خبر لیتے رہے اور پھر وہ پل بھی آیا کہ جس پل اس جوان نے اللہ اور رسول کے حکم پر بنائے گئے پاکستان کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کو بتا دیا کہ ہم اس نبی کے امتی ہیں کہ جس نے زندگی کے ہر مرحلے میں کوہ گراں کا سامنا کیا۔
اپنی زمین پر ناپاک قدم پاک فوج کے جوان کسی صورت بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ایک عجیب سی صورتحال میری آنکھوں کے سامنے منڈلا رہی تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ہم رحمت کے سائے میں بیٹھے ہوں لیکن میں نے دیکھا کہ ان بزرگ کی آنکھوں میں نمی تو نہ تھی لیکن ان کا جسم جوش ِ جذبات سے پر جوش نظر آرہا تھا۔
ایسالگ رہا تھا کہ جیسے وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ چند برس اوراگر عمار اس جہان فانی میں رک جاتا تو ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں میں ایک جوان مزید تازگی اورخوشبو کے پھول بکھیرنے میں اہم کردار ادا کرتا۔لیکن چونکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے۔
جو ایک لمحہ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا۔لہذا اللہ کا کوئی کام عجلت میں یا دیر سے نہیں ہوتا کیونکہ جو رب جانتا ہے وہ ہم نہیں جانتے،طویل عرصہ سے ہم ویگن کے کنڈیکٹروں کی زبان سے عمار چوک،عمار چوک کی آوازیں سنتے آئے ہیں۔ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ کنڈیکٹر کیا بول رہا ہے۔
ورنہ ہم اس کے ہاتھ چوم لیتے۔