علی اصغر ثمر 28 اکتوبر 1955ء کو مہربان خان کے گھر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ایف اے سرگودھا بورڈ سے کیا۔ ان کا مجموعہ کلام حال دل زار 2018 ء میں شائع ہوا جس میں نظمیں غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ادبی تنظیم بزم احباب قلم کے صدر ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے ادبی حلقوں میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔ انٹرویو کے آغاز میں انھوں نے بتایا کہ میں نے 1972 ء میں مراسلات کالم سے لکھنے کا آغاز کیا
جو روزنامہ جنگ راولپنڈی روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی اسلام آباد روزنامہ تعمیر راولپنڈی روز نامہ مشرق لاہور طوفان ڈائجسٹ نوشہرہ آداب عرض لاہور پاکیزہ ڈائجسٹ کراچی معیارہ ڈائجسٹ لاہور دوشیزہ ڈائجسٹ کراچی اور اس کے علاوہ کئی اور اخبارات میں کالم شائع ہوتے رہے۔ بچوں کی نظمیں روزنامہ جنگ اور غزلیات روزنامہ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتی رہیں۔ روزنامہ تعمیر اخبار کا ادبی ایڈیشن نئے چراغ کے نام سے شائع ہوتا تھا پہلے الطاف حسین اس کے انچارج تھے بعد میں طاہر پرواز ادبی ایڈیشن کے انچارج رہے۔ میری نظمیں اور غزلیں روزنامہ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتی رہیں
اصل میں میرا کافی سارا کلام پرانے کاغذوں پر لکھا تھا وہ مجھ سے کہیں گم ہو گیا حال دل زار میں شامل میری شاعری مختلف ادوار کی ہے جس میں میں نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔میری شاعری پر سرور انبالوی رشید نثار نسیم سحر خاور اعجاز شرف الدین شامی سیف علی سید عارف نسیم اقبال ملک شوکت مہدی کوثر ثمرین سید وقار عتیق ہاشمی اور آصف مغل نے اظہار خیال کیا ہے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں میں آصف مغل کا بہت ممنون ہوں جنہوں نے کتاب کی اشاعت میں بہت تعاون کیا
بلکہ یہ کتاب انہی کی وجہ سے منظر عام پر آئی۔ میں نے ادبی تقریبات منعقد کرانے کا سلسلہ 1973ء میں سی بی گرلز ہائی سکول چوہڑ ہڑپال سے شروع کیا پاکستان نیشنل سینٹر راولپنڈی اسلام آباد فیض الاسلام فیض آباد راولپنڈی اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کمیونٹی سینٹر آب پارہ اسلام آباد اور اس کے علاوہ بزم احباب قلم کے وفد نے لاہور میں علامہ اقبال کے صد سالہ جشن ولادت کے سلسلے میں فیصلہ سنایا کہ پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے یہ کریڈٹ بھی بزم احباب قلم کو جاتا ہے۔ تقریبات کا سلسلہ ہم نے روحانی طور پر تصوف کے حوالے سے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے پروگرام سے شروع کیا
جس کے پہلے پروگرام میں حاجی حنیف طیب کی صدارت تھی اور مہمان خصوصی راجہ شاہد ظفر اور حاجی نواز کھوکھر تھے یوں تصوف کے شعبے میں بھی بزم نے کافی کام کیا جس میں حضرت ابراہیم بن اودہم بلخی حضرت خواجہ عثمان ہارونی حضرت داتا گنج بخش لاہوری حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور بہت سے بزرگان دین شامل ہیں۔ تصوف کے ساتھ ساتھ ادبی پروگرام اسی طرح جاری رہے ایک شام تین مہمان ایک منفرد پروگرام میں ایک صاحب صدر ہوتا ہے اور ایک مہمان خصوصی ہوتا ہے اس میں شامل ادباء و شعراء کے کلام اور تخلیقات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
قارئین کے لیے کچھ کلام عنایت فرمائیں؟
ایک غزل پیش خدمت ہے:
چمن خود اپنے ہی رنگوں کے درمیان میں ہے
بہت دنوں سے نہ جانے وہ کس گمان میں ہے
کبھی تو اپنے نشیمن میں جا ہی پہنچے گا
قفس سے نکلا پرندہ ابھی اڑان میں ہے
جگر کا خون جو ٹپکا تھا رات خامے سے
تو شعر ہم نے لکھا جو وہ تیری شان میں ہے
فلک نے چھین لیا نام جس کا ہونٹوں سے
چھپا ہوا بھی وہی میرے ہر بیان میں ہے
یہ مرحلے بھی گزر جائیں گے ثمر آخر
یہ جان زار تو مدت سے امتحان میں ہے