155

عامر کیانی کی سیاست سے کنارہ کشی

میری ذاتی رائے ہے کہ آج کل شدید مشکلات سے دوچار تحریک انصاف کو غیر سیاسی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر عمران خان نے اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو ان کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے بظاہر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں مستقبل قریب میں بہتری آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دونوں طرف حالات بدل سکتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر عمران خان کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں اور نہ ہی کسی ایسے ممکنہ فیصلے کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کے امکانات ہیں پاکستان تحریک انصاف نو مئی کو سرکاری اور ملٹری املاک پر ہونے والے حملوں کے بعدزیر عتاب ہے اسکی تمام مرکزی قیادت زیر حراست ہے اور کئی پارٹی رہنماء پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اگر ہم دیکھیں تو صرف پنجاب میں پی ٹی آئی کے ورکروں پر اڑھائی سو سے زائد مقدمات قائم ہو چکے ہیں اور ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اگر ہم راولپنڈی کی بات کریں تو یہاں پاکستان تحریک انصاف کا ایک اچھا ووٹ بنک ہے اور یہاں کی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور یہی وجہ کے تحریک انصاف کی مرکز اور پنجاب میں حکومت بننے کے بعد وزراء کی اچھی خاصی تعداد راولپنڈی سے تعلق رکھتی تھی مگر 9 مئی اور اسکے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ راولپنڈی کی قیادت منظر نامہ سے بالکل غائب ہے حالانکہ راولپنڈی میں بڑے بڑے نام پاکستان تحریک انصاف کے ہیں جن میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور انکے بھتیجے شیخ راشد شفیق اسکے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے فیاض الحسن چوہان، اعجاز خان جازی، راجہ بشارت، عمر بٹ‘ راجہ راشد حفیظ، حاجی امجد محمود چوہدری، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم عباسی‘ سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان اور انکے صاحبزادے منصور خان سمیت بڑے نام شامل ہیں راولپنڈی شہر سے ہٹ کر اسکے ملحقہ علاقوں کی بات کریں تو مری سے صداقت عباسی گوجرخان سے جاوید کوثر‘ چوہدری ساجد شامل ہیں اسی طرح سے خواتین کارکنان کی بڑی تعداد راولپنڈی میں موجود ہے جو سابقہ ایم پی اے اور ایم این اے رہی ہیں مگر احتجاج کیلئے ماسوائے چند ایک کے کوئی بھی نظر نہیں آیا شاید یہی وجہ ہے کے بغیر قیادت کے عوام نکلی اور جلاؤ گھیراؤ ہوا اگر ہم گرفتاریاں بھی دیکھیں تو راولپنڈی سے فیاض الحسن چوہان اور کرنل اجمل صابر راجہ کے علاوہ کسی رہنماء کی گرفتاری بھی نہیں ہوئی مگر اسکے باوجود تمام رہنماء خاموش نظر آرہے ہیں جبکہ بہت سے رہنماؤں کے حوالے سے قیاس آرائیاں بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں کہ وہ پارٹی کو خیر آباد کہنے کا سوچ رہے ہیں اور جلد با دیر وہ اسکا باضابطہ اعلان کرینگے کہ وہ اس جماعت کا حصہ نہیں ہیں مگر ان سب میں پہل عمران خان کے قریبی ساتھی اور ایڈیشنل جنرل سیکرٹری عامر محمود کیانی نے کی اور پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا انکا کہنا تھا کہ وہ سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ رہے ہیں حالانکہ عامر محمود کیانی وہ شخصیت جنکی تحریک انصاف میں بہت اہمیت تھی یہی وجہ تھی کہ راولپنڈی کے تمام صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ٹکٹ عامر محمود کیانی نے فائنل کیے جس پر بہت سے پارٹی ورکرز ان سے ناراض بھی تھے احتجاج بھی کیے مگر عمران خان نے اپنے قریبی ساتھی عامر کیانی کے فیصلوں کو ہی تسلیم کیا اور ٹکٹ انکو ہی دیے اسکے علاوہ بھی عامر محمود کیانی پارٹی کے چند اہم لوگوں میں شامل تھے جو شروع کے دنوں سے تحریک انصاف کا حصہ تھے اور انکی پارٹی میں بہت اہمیت تھی یہی وجہ کے عمران خان نے بھی پریس کانفرنس میں انکا ذکر کیا کہ باقی بہت سے لوگ چھوڑ کر جارہے مگر سب سے زیادہ دکھ عامر کیانی کا ہوا اسی طرح راولپنڈی کی دیگر سیاسی شخصیات کی بات کریں تو وہ مکمل خاموش ہیں جس سے بظاہر یہی لگ رہا کہ یا تو وہ گرفتاری کے ڈر سے وقتی طور پر انڈر گراؤنڈ ہوئے ہیں یا پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے خاموش ہیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر راولپنڈی کی تمام سیاسی قیادت کا خاموش رہنا لمحہ فکریہ ہے باقی پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل خود عمران خان کے ہاتھوں میں ہے پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اسے روایتی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا اور میری ذاتی رائے ہے کہ اسکو آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملے یا نہ ملے لیکن اگلی پارلیمنٹ میں اس کا کردار ضرور ہوگا نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی ایک مشکل دور سے ضرور گزر رہی لیکن اسے اب بھی عوامی سپورٹ حاصل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بحران سے نکل آئے گی لیکن اگر یہ بحران بڑھتا چلا گیا اور اصلاح احوال کی کوششیں کام نہ کر سکیں تو پھر اس کے نتائج پارٹی کے لیے بہت برے ہو سکتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں کی مقبولیت جانچنے کا ایک اچھا پیمانہ صرف الیکشنز ہی ہیں اور اگر پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں اب بھی الیکشن کروانے پر تیار نہیں ہیں تو پھر اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں