میری ذاتی رائے ہے کہ آج کل شدید مشکلات سے دوچار تحریک انصاف کو غیر سیاسی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر عمران خان نے اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھا تو ان کی مشکلات میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے بظاہر پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات میں مستقبل قریب میں بہتری آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا لیکن وقت گزرنے کیساتھ ساتھ دونوں طرف حالات بدل سکتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی پر پابندی لگا کر عمران خان کو نااہل کرنا اتنا آسان نہیں اور نہ ہی کسی ایسے ممکنہ فیصلے کے زیادہ دیر تک برقرار رہنے کے امکانات ہیں پاکستان تحریک انصاف نو مئی کو سرکاری اور ملٹری املاک پر ہونے والے حملوں کے بعدزیر عتاب ہے اسکی تمام مرکزی قیادت زیر حراست ہے اور کئی پارٹی رہنماء پارٹی کو چھوڑنے کا اعلان کر چکے ہیں اگر ہم دیکھیں تو صرف پنجاب میں پی ٹی آئی کے ورکروں پر اڑھائی سو سے زائد مقدمات قائم ہو چکے ہیں اور ساڑھے تین ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اگر ہم راولپنڈی کی بات کریں تو یہاں پاکستان تحریک انصاف کا ایک اچھا ووٹ بنک ہے اور یہاں کی تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر 2018 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور یہی وجہ کے تحریک انصاف کی مرکز اور پنجاب میں حکومت بننے کے بعد وزراء کی اچھی خاصی تعداد راولپنڈی سے تعلق رکھتی تھی مگر 9 مئی اور اسکے بعد کی صورتحال کا جائزہ لیں تو دیکھتے ہیں کہ راولپنڈی کی قیادت منظر نامہ سے بالکل غائب ہے حالانکہ راولپنڈی میں بڑے بڑے نام پاکستان تحریک انصاف کے ہیں جن میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اور انکے بھتیجے شیخ راشد شفیق اسکے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کے فیاض الحسن چوہان، اعجاز خان جازی، راجہ بشارت، عمر بٹ‘ راجہ راشد حفیظ، حاجی امجد محمود چوہدری، ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی واثق قیوم عباسی‘ سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان اور انکے صاحبزادے منصور خان سمیت بڑے نام شامل ہیں راولپنڈی شہر سے ہٹ کر اسکے ملحقہ علاقوں کی بات کریں تو مری سے صداقت عباسی گوجرخان سے جاوید کوثر‘ چوہدری ساجد شامل ہیں اسی طرح سے خواتین کارکنان کی بڑی تعداد راولپنڈی میں موجود ہے جو سابقہ ایم پی اے اور ایم این اے رہی ہیں مگر احتجاج کیلئے ماسوائے چند ایک کے کوئی بھی نظر نہیں آیا شاید یہی وجہ ہے کے بغیر قیادت کے عوام نکلی اور جلاؤ گھیراؤ ہوا اگر ہم گرفتاریاں بھی دیکھیں تو راولپنڈی سے فیاض الحسن چوہان اور کرنل اجمل صابر راجہ کے علاوہ کسی رہنماء کی گرفتاری بھی نہیں ہوئی مگر اسکے باوجود تمام رہنماء خاموش نظر آرہے ہیں جبکہ بہت سے رہنماؤں کے حوالے سے قیاس آرائیاں بھی سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہیں کہ وہ پارٹی کو خیر آباد کہنے کا سوچ رہے ہیں اور جلد با دیر وہ اسکا باضابطہ اعلان کرینگے کہ وہ اس جماعت کا حصہ نہیں ہیں مگر ان سب میں پہل عمران خان کے قریبی ساتھی اور ایڈیشنل جنرل سیکرٹری عامر محمود کیانی نے کی اور پارٹی کو خیر آباد کہہ دیا انکا کہنا تھا کہ وہ سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ رہے ہیں حالانکہ عامر محمود کیانی وہ شخصیت جنکی تحریک انصاف میں بہت اہمیت تھی یہی وجہ تھی کہ راولپنڈی کے تمام صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے ٹکٹ عامر محمود کیانی نے فائنل کیے جس پر بہت سے پارٹی ورکرز ان سے ناراض بھی تھے احتجاج بھی کیے مگر عمران خان نے اپنے قریبی ساتھی عامر کیانی کے فیصلوں کو ہی تسلیم کیا اور ٹکٹ انکو ہی دیے اسکے علاوہ بھی عامر محمود کیانی پارٹی کے چند اہم لوگوں میں شامل تھے جو شروع کے دنوں سے تحریک انصاف کا حصہ تھے اور انکی پارٹی میں بہت اہمیت تھی یہی وجہ کے عمران خان نے بھی پریس کانفرنس میں انکا ذکر کیا کہ باقی بہت سے لوگ چھوڑ کر جارہے مگر سب سے زیادہ دکھ عامر کیانی کا ہوا اسی طرح راولپنڈی کی دیگر سیاسی شخصیات کی بات کریں تو وہ مکمل خاموش ہیں جس سے بظاہر یہی لگ رہا کہ یا تو وہ گرفتاری کے ڈر سے وقتی طور پر انڈر گراؤنڈ ہوئے ہیں یا پھر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لیے خاموش ہیں اب اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر راولپنڈی کی تمام سیاسی قیادت کا خاموش رہنا لمحہ فکریہ ہے باقی پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل خود عمران خان کے ہاتھوں میں ہے پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہے اسے روایتی ہتھکنڈوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا اور میری ذاتی رائے ہے کہ اسکو آئندہ انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملے یا نہ ملے لیکن اگلی پارلیمنٹ میں اس کا کردار ضرور ہوگا نو مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی ایک مشکل دور سے ضرور گزر رہی لیکن اسے اب بھی عوامی سپورٹ حاصل ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بحران سے نکل آئے گی لیکن اگر یہ بحران بڑھتا چلا گیا اور اصلاح احوال کی کوششیں کام نہ کر سکیں تو پھر اس کے نتائج پارٹی کے لیے بہت برے ہو سکتے ہیں مگر سیاسی جماعتوں کی مقبولیت جانچنے کا ایک اچھا پیمانہ صرف الیکشنز ہی ہیں اور اگر پی ٹی آئی کی مخالف جماعتیں اب بھی الیکشن کروانے پر تیار نہیں ہیں تو پھر اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے۔
155