عالم اسباب/پروفیسر محمد حسین
مشہور اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک نے دمشق میں عیسائی پادریوں سے اس شرط پر زمین حاصل کی کہ وہ ان کے عقیدہ کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کے واپسی کے مقام کو نہیں چھیڑے گا اور اس جگہ ایک شاندار مسجد تعمیر کی جسے جامع امیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے عیسی ؑ اسی مسجد کے ایک مینار پر آسمان سے اتریں گے حضرت عیسی ؑ جامع امیہ میں موجود لوگوں کو حکم دیں گے کہ سیڑھی کا بندوبست کرو میں مینار سے نیچے اترنا چاہتا ہوں لوگ یہ مطالبہ سن کرہنسیں گے ادھر عرض کر یں گے کہ حضور آپ آسمان سے زمین پر تشریف لے آئے ہیں لیکن آپ کو مینار سے اترنے کے لیے سیڑھی درکار ہے یہ تو عجیب بات ہے حضرت عیسی ؑ جوب دیں گے کہ میں اس وقت عالم اسباب میں کھڑا ہوں اور عالم اسباب میں ہم سب سیڑھی کے محتاج ہیں لوگ یہ سن کر سبحان اللہ ،سبحان اللہ کہیں گے سیڑھی کا بندوبست کریں گے اور حضرت عیسی ؑ زمین پر اتریں گے یہ واقعہ پڑھنے کے بعد عالم اسباب کی ساری حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے ہم مسلمان خوفناک حد تک ذہنی نفسیاتی اور روحانی مغالطے کا شکا ر ہیں ہم پوری زندگی روحانی معجزوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور اس انتظار میں ہم فراموش ہیں کہ حضرت موسی کلیم اللہ تھے وہ اپنے عصا سے سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن وہ بھی اپنی امت کے لیے عالم اسباب کے تقاضے ختم نہ کر سکے حضرت عیسیٰ ؑ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے لیکن وہ رومن سلطنت کے اسباب کا مقابلہ نہ کر سکے نبی کریم ؐ اللہ تعالیٰ کے آخری اور محبوب ترین نبی ہیں لیکن انھیں بھی عالم اسباب میں تلوار نیام گھوڑے زرہ اونٹ پانی خوراک اور لباس کا بندوبست کرنا پڑا یہ بھی دفاع کرتے رہے جنگیں لڑتے رہے اور یہ بھی پیٹ پر دو دو پتھر باندھتے رہے آپ ؐ کو بھی ساتھیوں ،بھائیوں ،ہجرتوں اور معاش کی ضرورت پڑتی رہی یہ بھی تجارت فرماتے رہے اور یہ بھی اپنے گھر آباد کرتے رہے آپ ؐ نے دوست بنائے تو شاندار لوگوں کا انتخاب کیا غلام خادم اور کنیزیں چنیں تو تہذیب شائستگی اور مروت کا شاہکار پسند فرمائیں آپ ؐ نے پوری زندگی کمزور تلوار خریدی اورنہ ہی بیمار گھوڑے اور لاغر اونٹ پر سفر کیا آپ ؐ نے لباس بھی ہمیشہ صاف ستھرا اور بے داغ پہنا اور رہائش کے لیے بھی شہر کا معتدل پر فضا اور مرکزی مقام پسند کیا آپ ؐ نے زندگی بھر عالم اسباب میں اسباب کا پورا خیال رکھا اچھا کھانا کھایا ،اچھا پھل پسند فرمایا ،اچھی جگہ اور اچھے لوگ پسند کیے آپ ذرا سوچئیے کہ عرب حملہ آوروں سے مقابلے کے لیے شہروں سے زیادہ دور نہیں جاتے تھے لیکن آپؐ جنگ بدر کے موقع پر مدینہ سے ایک سو چھپن کلو میٹر دور بدر کے میدان میں خیمہ زن ہوئے آپؐ غزوہ احد کے موقع پر احد کے پہاڑ پر چلے گئے آپؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ کے گرد خندق کھودی اور آپ ؐ نے کافروں سے مقابلے کے لیے یہودیوں کے ساتھ معائدے بھی کیے یہ عالم اسباب میں اسباب کی بہترین مثالیں ہیں نبی کریم ؐ رات کے ایک حصہ میں معراج سے مستفید ہوتے انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے کر دئیے لیکن آپ ؐ نے جب عالم اسباب میں واپس آگئے تو آپ ؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے آپؐ طائف میں زخمی بھی ہوئے آپؐ کو بھوک پیاس گرمی سردی اور خوف بھی محسوس ہوتا رہا آپ ؐ بیمار بھی ہوئے آ پ ؐ پر زہر کا اثر بھی ہوا آپ ؐ جادو کے اثرات سے نکلنے کا بندوبست بھی کرتے رہے اور آُ پ ؐ غربت اور بیماری سے پناہ بھی مانگتے رہے یہ عالم اسباب کے وہ سبب ہیں جن سے کوئی آدمی اور ذی روح آزاد نہیں ہو سکتا تو پھر کوئی نبی ہو یا کوئی ولی یا پھر عام انسان ہوں عالم اسباب کے تمام اسباب کے محتاج ہیں آپ کو پھر حضرت حمزہؓ کی شہادت تکلیف دے گی آپ پھر والدہ کی قبر پر آنسو بھی بہائیں گی آپ کو پھر اچھی تلواروں ،گھوڑوں اور اونٹوں اور تربیت یافتہ فوج کی ضرورت بھی پڑے گی آپ کو شفاف پانی اچھی خوراک ،طاقت ور اور تیز رفتار انصاف،ماہر ڈاکٹر معیاری تعلیم رواں سڑک کی ضرورت بھی ہو گی اور آپ کو سردی گرمی اور وباء کا مناسب بندوبست بھی کرنا پڑے گاہم اگر عالم اسباب میں ہیں تو پھر ہمیں اسباب کا انتظام کرنا ہو گا ہمیں پھر اسی سیڑھی کا بندوبست کرنا ہو گا جو حضرت عیسی ؑ کو مینا رسے زمین پر اتار سکے ایسی دورائیں ایجاد کرنا ہوں گی جو امت مسلمہ کو صحت مند رکھ سکیں ہمیں ایسی ٹیکنالوجی ایجاد کرناہو گی جو سردی میں گرمی اور گرمی میں سردی پیدا کر سکے ہمیں یہ بھی ثابت کرنا ہو گا کہ مومن اسباب کی دنیا میں کسی کو اپنے برابر نہیں آنے دیتا ہم محمدی ہیں اور قینچی ہو یا راکٹ ہم کسی بھی فیلڈ میں دنیا کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے اس امت کو کون بتائے گا کہ انسان عالم اسباب میں سبب کے بغیر بے سبب ہو جاتا ہے اور بے سبب لوگ دنیا اور آخرت میں مارکھا جاتے ہیں ۔
199