شرعی اصطلاح میں بیوی کو قید نکاح سے آزاد کرنے اور نکاح کی پابندیوں کو ختم کردینے کا نام طلاق ہے یہ جائز ہونے کے باوجود رب کے نزدیک ایک نا پسندیدہ عمل ہے کسی بھی معاشرے کا مضبوط خاندانی نظام بحثیت مجموعی معاشرے کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے
تاہم پہلے کی نسبت آج کے دور میں خانگی لڑائی جھگڑوں کے طول پکڑنے سے ہمارے خاندانی نظام کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں۔ پہلے شہروں کی حد تک میاں بیوی میں علیحدگی اور طلاق کے واقعات کے رونما ہونے کے متعلق سنتے تھے‘تاہم اب یہ وبا دیہاتوں میں بھی پھوٹ پڑی ہے۔
آئے روزمیاں بیوی کے مابین جھگڑے خاندانی نظام کے ٹوٹنے کا باعث بن رہے ہیں جو کہ ایک تشویشناک صورتحال ہے۔ اسکی روک تھام کیلئے جید علماء اور والدین کو میاں بیوی کے خانگی جھگڑوں کی صورت میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رحجان کی روک تھام کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ورنہ خاندان اور معاشرہ دونوں بکھر کر رہ جائیں گے۔ کیونکہ طلاق کی صورت میں صرف مرد اور عورت کے درمیان علیحدگی نہیں ہوتی
بلکہ دو خاندان اور برادریوں کے مابین سالوں پر محیط قائم سچے رشتوں میں نفرت کی دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ ناچاقی باہمی تنازعات اور خانگی لڑائی جھگڑوں کو کورٹ کچہری میں لے جانے سے مسائل میں مزید اِضافہ ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر بچے ہوں تو پھر ان بچوں کیلیے بقیہ زندگی کی ساعتیں کاٹنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے۔جبکہ دوسری شادی پر تو ایک طرف تمام عمر شفقت پدری سے محروم ہو جاتے ہیں
بلکہ دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حالیہ کچھ سالوں میں ہمارے دیہات میں بھی طلاق کی بڑھتی شرح میں تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان واقعات میں اضافہ کیوں ہوا اسکی وجوہات کا تعین کرنا ضروری ہے سب سے اہم وجہ ہمارے معاشرے میں خواتین کو برابر کے حقوق نہ ملنا ہے جسکی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ والدین کی یہی کوشش ہوتی ہے
کہ وہ اپنی بیٹی کیلئے معقول رشتہ ڈھونڈ کر اسکی شادی کریں تاہم رشتے طے کرتے وقت مدمقابل خاندان کی تلخ حقیقتوں کو پس پشت ڈال کر لڑکے کے خاندانی پس منظر تعلیم و تربیت اخلاقیات کو پرکھنے کی بجائے دولت کی فراوانی اور اسٹیٹس کو ترجیح دی جاتی ہے اور یہی سے خرابی شروع ہوتی ہے
دوسری اہم وجہ جوڑوں میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہونا بھی شامل ہے جیسے اول الذکر بیان کیا گیا ہے کہ جب رشہ طے کرنے میں مساوات نہیں ہوگی تو رشتہ پائیدار نہیں ہوگا یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں رشتہ طے کرنے کا وقت آتا ہے تو دونوں طرف سے والدین آپس میں تمام امورخود طے کر لیتے ہیں جبکہ دونوں طرف سے لڑکے لڑکی کی ذہنی ہم آہنگی کے پہلو کو بھی یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے پھر شادی کے بعد مسائل سر اٹھاتے ہیں رفتہ رفتہ جوڑوں کے مابین لڑائی جھگڑے اور اختلافات علیحدگی کا سبب بنتے ہیں دوسری اہم وجہ رشتہ طے کرتے وقت دونوں فریقین کا ایک دوسرے کے خاندانی پس منظر کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے کسی بھی خاندان کا ماضی اور معاشرتی رہن سہن کو پرکھنا بھی رشتوں کے تعین میں کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے
۔ جب دولت مخالف سمت کی اخلاقیات پر حاوی ہو جائے تو پھر مسائل تو ہونگے ناجائز زرائع سے کمائے ہوئے مال سے اولاد کی پرورش کرنے سے بھی خاندان کا سکون چھن جاتا ہے جب ناجائز طریقوں سے کمایا ہوا مال اولاد کی رگوں میں گردش کرتا ہے تو شیطانی وسوسے جنم لیتے ہیں اور خاندانی رشتوں میں دراڑ پیدا ہوتی ہے جسکا نتیجہ آخر کار طلاق یا خلع کی صورت میں سامنا آتا ہے، بیوی کا نان نفقہ اور ضروریات زندگی کی عدم فراہمی بھی طلاق کی اہم وجہ ہے۔بیوی بچوں کی کفالت کیلئے روٹی کپڑا اور مکان بنیادی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں
جب خاوند مالی مسائل کا شکار ہوگا تو ایسے حالات میں وہ اپنے بال بچوں کی کفالت بہتر انداز میں نہیں کر سکتا تو اس طرح لاحق مالی پریشانی سے گھریلو ناچاقیاں جنم لیتی ہیں
روزمرہ گھریلو تشدد بھی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کی اہم وجہ ہے۔ سب سے اہم اور بنیادی نقطہ دین سے دوری ہے بالخصوص میاں بیوی کے حقوق سے عدم شناسائی کی بنا پر بھی خاندان ٹوٹ جاتے ہیں
جب مساجد میں اذان کی آواز گونج رہی ہو گھر میں والدین کیساتھ اولاد موبائل فون یا ٹی وی پر مگن ہو تو پھر والدین کا اولاد سے خیر کی توقع رکھنا ایک احمقانہ طرزعمل ہوگا،اگر والدین نہ خود نماز کی پابند ہوں اور نہ ہی اسلامی اصولوں کے مطابق اولاد کی تربیت کرنے میں غفلت برتیں تو ایسے غیر ذمہ دارانہ رویہ کے نتیجے میں معاشرے
اور خاندان کی تباہی یقینی ہے۔ پسند اور ناپسند بچوں کی ضد جاگتی آنکھوں تلسماتی خواب کی تعبیر اور گفتگو محض موبائل فون کی حد تک تو اچھی لگتی ہیں لیکن ایسے خوابوں کی تعبیر اکثر اوقات ادھوری رہ جاتی ہے لو میرج کی نازک شاخ کی ٹہنیوں پر کھڑے کمزور رشتے اکثر وبیشتر انکا انجام علیحدگی کی صورت میں ہی سامنے آتا ہے۔ خانگی جھگڑوں کی صورت میں میاں بیوی کا صبروتحمل بردباری اور تدبر غصے کو ٹھنڈا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں تاہم دوسری طرف عدم برد ا شت کا رویہ بھی خانگی نظام کے ٹوٹنے کا باعث بنتا ہے
۔ کم عمری کی شادی جوائنٹ فیملی سسٹم کی آڑ میں برادری میں سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روایت آج بھی برقرار ہے ساس بہو دیورانی اور جیٹھانی کی سازشیں موجودہ دور میں جوائنٹ فیملی سسٹم کے اندر ہونے والی شادیوں کو بھی ناکامی سے دوچار کر دیتی ہیں اسکے علاؤہ بھی دیگر وجوہات اور عوامل ہیں جس سے ہمارا خاندانی نظام آج تباہی کے دھانے پر کھڑا ہے ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے سے تنازعات طول پکڑتے ہیں
اور غصے میں بات طلاق تک پہنچ جاتی ہیں میاں بیوی کا رشتہ بڑا انمول ہوتا ہے گو خانگی لڑائی جھگڑے معاشرتی زندگی کا ایک حصہ ہیں
تاہم ان جھگڑوں کو نفرت میں تبدیل مت کریں لڑائی جھگڑے کی صورت میں صبروتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کریں تاکہ انکی آڑ میں بات علیحدگی تک نہ پہنچے۔