تحریر:زنیرہ بنت غزالی
پاکستان جس کو معرض وجود میں آئے67سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے مگر ترقی کے لحاظ سے پاکستان اپنے بعد وجود میں آنے والے ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ کیسے پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آئے گا؟ کیا یہ صرف وفاقی اور صوبائی ھکومت کی ذمہ داری ہے؟ شاید نہیں! بلکہ یہ ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو پاکستان میں رہتا ہے۔ جو ملک کے حالات پر تو ہر وقت روتا ہے مگر اس کے حالاتا بہتر کرنے کیلئے کچھ نہیں کرتا۔
BRICSکے قیام کی خبر سن کر مجھے جھٹکا لگا۔ یہ پانچ ممالک برازیل، روس، انڈیا، چائنہ، جنوبی افریقہ کا مل کر عالمی بنک(World Bank) کے مقابلے میں قائم کردہ بینک ہے ان ممالک کا خیال ہے کہ عالمی بینک پر امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ یہ پانچوں وہ ممالک ہیں جو یا تو پاکستان کے بعد قائم ہوئے یا انھوں نے ابتداء میں بے شمار مشکلات جھلیں۔ مگر ان کی عوام نے ترقی کی ٹھانی۔اور اب ماہرین کا کہنا ہے کہ اگلے کچھ عرصہ میں معاشی لحاظ سے ان ممالک کا دنیا پر قبضہ ہو گا۔ برازیل امیر ممالک میں شمار تو نہیں ہو تا، روس کچھ عرصہ پہلے ٹکڑے ٹکڑے ہوا، بھارت پاکستان سے ایک دن بعد معرض وجود میں آیا۔اور جنوبی افریقہ نے اپنے عظیم لیڈر نیلسن منڈیلا کی قیادت میں برے حالات دیکھے۔ کیا ایسا نہیں ہوا؟ اور اب یہ ممالک معاشی ترقی میں بننے جار ہے ہیں۔اگر پاکستان کی عوام اور سیاسی لیڈروں نے ملکی ترقی میں حصہ لیا ہوتا اور اپنا کردار ادا کیا ہوتا تو شاید آ ج پاکستان کا\”P\”بھیBRICSکے ساتھ ہوتا۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔
نوجوانو! کیا کبھی آپ نے سوچا کہ آپ لوگ پاکستان کو کیا دے رہے ہیں؟ آپ اپنے فرائض ادا بھی کر بھی رہیں ہیں یا نہیں؟ ہم کیوں اپنے حقوق پہلے مانگتے اور فرائض ادا کرتے ہی نہیں؟ وجہ شاید یہ ہے کہ ہم میں شعور کی کمی ہے۔ اگر ہم باشعور ہو جائیں تو کہیں گے کہ ہم نے اس سرزمین کو کیا دیا جو ہم اس سے کچھ مانگیں؟
نوجوانو! ضرورت محب وطن ہونے کی ہے۔ اپنے وطن سے محبت کیجئے اور ہم جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو اپنے بہت سے حقوق سے دستبردار بھی ہوتے ہیں۔مگر فرائض ادا ضرور کرتے ہیں ۔ لیکن ہم کیا کرتے ہیں۔ بل ادا کرنے پر تو ہماری جان جاتی ہے مگر کنڈا لگا کر بجلی چوری کرنا تو ہم اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگر ملازم ہے تو تنخواہ پہلی تاریخ پر لینا اپنا حق سمجھتے ہیں مگر کام چوری کرنا اپنا فرض۔ ایک طالبعلم ہے تو وہ اپنے اساتذہ کو دھوکا دینا اور سکول، کالج سے بھاگ کر سیاسی جلسے جلوسوں میں جانا تو اپنا حق سمجھتے ہیں مگر برا رزلٹ آنے پر سکول انتظامیہ اور اساتذہ کو برا بھلا کہنا اپنا فرض۔ والدین کی طرف دیکھا جائے تو وہ اپنی اولاد کی تربیت اور کردار سازی پر توجہ نہیں دیتے۔ تو کیا ہم اپنے فرائض ادا کر رہے ہیں؟ ایسے حالات میں ایک شاعر کی بات یاد آتی ہے کہ
اپنی خرابیوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہے کہ زمانہ خراب ہے
نوجوانو! آج کے چیلنجنگ دور میں موجودہ پاکستان کو قائم ودائم رکھنے اور ترقی کی راہ پر چلانے کے لیے ہمیں دھرنوں، انقلابوں اور نئے پاکستان کے قیام کی ضرورت نہیں بلکہ پرانے پاکستان کی بنیادیں ہی درست کرنا ہوں گی۔ ہر ایک کو اپنے فرائض ادا کرنے ہوں گے۔ قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم نے کہا تھا کہ یہاں جمہوری نظام ہو گا۔ مگر ہم جمہوریت کا مفہوم تک تو جانتے نہیں اور دھرنوں اور انقلابوں کی صورت میں قومی املاک کا نقصان کرنے کیے صف اول میں جا کھڑے ہوتے ہیں۔ عوام کا کام منتخب شدہ نمائندوں کو حکومت سونپنا ہوتا ہے اور پھر ترقی کی دوڑ میں حکومت کا ساتھ دینا بھی۔ مگر یہاں تو رواج ہی الٹا ہے۔ لوگ پہلے خود نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں اور پھر ان کی کاردگردگی پر روتے ہیں۔ ہمیں جوش کی نہیں ہوش کی ضرورت ہے۔ ہمیں چائیے کہ ہم جمہوری حکومت کو اس کی مدت پوری کرنے کاموقع دیں جیسے پچھلی حکومت کو دیا گیا۔ اگر آپ کو اس حکومت کی کاردگردگی پسند نہیں آتی تو جب الیکشن ہونے تو ان کو ووٹ مت دیجیئے گا۔ لیکن یہ کونسا طریقہ ہے ختم کرنے کا؟ کہ آپ پوری دنیا میں اپنے ملک کا امیج خراب کرتے ہیں اور ساتھ املاک کو نقصان بھی پہنجاتے ہیں۔ اپنے داخلی انتشار کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ کیا لیبیا، عراق اور شام کی مثالیں ہمارے نہیں؟ جن کے اندرونی انتشار نے بیرونی قوتوں کو ان ممالک میں قدم جمانے کا موقع دیا۔
نوجوانو! محب وطن پاکستان ہونے کے ناطے ہمیں حالات کو سدھارنا ہو گا، حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ ٹی وی میں ایک صاحب کو کہتے سنا تو اچھا لگا جو کہہ رہے تھے۔ ’’ ہمیں پاکستان کی ہر چیز پر فخر کرنا چائیے، ملک کو برا بھلا نہ کہیں، کیونکہ ملک کو اس موڑ پر لانے والے بھی ہم ہی ہیں۔ ملک کے اندر کے لوگ ملک کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ ملک کا Tagبن جاتا ہے پھر وہیTagپوری دنیا دیکھتی ہے‘‘ ۔ ہمیں حکومت کا ساتھ دینا ہو گا۔ مثبت سوچ پیدا کرنا ہوگی پوری دنیا کو پاکستان کا مثبت امیج دکھانا ہو گا۔ آج ضرورت کس امر کی ہے؟محب وطن اور فرائض ادا کرنے کی۔
افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
136